Urdu poem by Syed Fasih Rizvi: بچے کسے اچھے نہیں لگتے ہیں ۔۔۔! تحریر  : سید فصیح رضوی 

 Urdu poem by Syed Fasih Rizvi

مجھے بچے اچھے لگتے ہیں ۔۔۔۔

جلدی بہل جاتے ہیں

چھوٹی چھوٹی خواہشیں  رکھتے ہیں۔

روز لڑتے ہیں روز مان جاتے ہیں

کل کی بات یاد نہیں رکھتے

کوئی بات دل میں نہیں رکھتے  کہہ دیتے ہیں

بغیر سمجھے بول دیتے ہیں اور سمجھنے پر معافی بھی مانگ لیتے ہیں کان بھی پکڑ لیتے ہیں

اگر خود کسی بات پر روٹھیں تو چوٹی چھوٹی  چیزوں پر بھی مان جاتے ہیں جیسے چاکلیٹ  یا آئیسکریم ۔۔۔

ہم جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتے ہیں ہم میں انا بڑھتی جاتی ہے

ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سب سمجھتے ہیں

ایک سبجیکٹ میں مشکل سے ڈگری حاصل  کر کہ سمجھتے ہیں ہم سب جانتے ہیں ۔۔

اور نہ  اپنے سے زیادہ  علم رکھنے والوں کو اچھا سمجھتے ہیں نہ اپنے سے کم علم والوں کو

تھوڑا سا کما لینے پر دوسروں  پر خود کو فوقیت دیتے ہیں ، اپنے سے کم کمانے والوں پر فخر اور زیادہ کمانے والوں سے حسد کرتے ہیں

جلدی ناراض ہوتے ہیں دیر سے مانتے بھی ہیں اور دیر سے مناتے بھی ہیں

بڑوں میں بڑی  بڑی  خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔۔۔

اور تو اور محبت بھی ٹھیک سے نہیں  کرتے

نفرت جلدی کرتے ہیں ۔۔۔

امی کی گود میں بھی نہیں سوتے

ابو کا ہاتھ پکڑ کر نہیں چلتے

بچپن میں جن بھائی بہنوں  سے زیادہ کھیلتے تھے اور دوست  رکھتے تھے بڑے  ہو کر انہی سے زیادہ دور ہوتے ہیں اور دوسروں  کو زیادہ  دوست رکھتے ہیں  ان۔پر بھائیوں سے زیادہ بھروسہ  کرتے ہیں ان کی Birthday  یاد ہوتی ہیں بھائیوں  اور بہنوں کی بھول  جاتے ہیں

یہانتک  کہ ماں  باپ کی تاریخ  بھی یاد نہیں رہتی

اور اپنی کبھی نہیں بھولتے

جو وش نہ کرے اس پر ناراض  ہوتے ہیں

برے مٹی  سے کبھی نہیں  کھیلتے

نا کبھی مٹی  کھاتے ہیں ۔۔

ہم بڑے بچوں پر ہنستے ہیں ۔۔۔

اور اکثر اپنے ہی بچوں پر زیادہ ہنستے ہیں

کبھی اپنے بچوں کو مٹی کھاتے ہوئے

کبھی آئیسکریم  پر ضد کرتے ہوئے

کبھی انکے گرنے پر

کبھی انکے رونے پر

کبھی انکے پینٹ میں ہی پیشاب بہہ جانے پر

کبھی لڑتے دیکھ کر

کبھی ہنستے اور روتے دیکھ کر

یہ ہم ان پر نہیں  اپنے آپ پر ہنستے ہیں

ان میں اپنے آپ کو دیکھتے  ہیں

اپنی حرکتوں  کو دیکھتے ہیں

اور دل ہی دل میں کہتے ہیں

ایسا تو میں نے بھی کیا تھا

ایسا تو میرے ساتھ بھی ہوا تھا

ایسی ضد تو میں کرتا بھا

اور کبھی کبھی سب سے کہہ بھی دیتے ہیں

ایک دفعہ  تو میں نے بستر گیلا کر لیا تھا

اور پھر سوچتے ہیں وہ ایک بار تو نہیں تھا کئی دفعہ  ایسا ہوا تھا

چھوٹی  چھوٹی  چوری ۔۔

چوری چوری کسی کی چیز کھا جانا

فرج میں سے دودھ پی جانا

اور دودھ اچھا نہ لگنے پر چپکے سے واپس فرج میں رکھ آنا کس نے نہیں کیا تھا ۔۔

یہ سب حرکتیں  ، حماقتیں  اور شرارتیں  ہم خود کر کے بڑے ہوئے ہیں

مگر بڑے ہوتے ہیں وہ سب چیزیں نہیں  کرتے جو کہ بچپن میں کرتے تھے ۔۔

لیکن کبھی کر کے دیکھ لیں ۔۔ آپ کو آپ کا بچپن چھوتا ہوا محسوس ہوگا ۔

بری باتی نہیں اچھی باتیں ۔۔۔

ابھی آپ بستر گیلا کرنے سے تو رہے وہ تو چاہتے ہوئے بھی نہیں کر سکیں گے ۔۔

کسی اور کا بستر گیلا ضرور کرستے ہیں

کسی اور کا چاکلیٹ  تو کھا سکتے ہیں

کسی گھر میں داخل ہوتے ہیں ڈرا نہیں سکتے تو اپنے بچے کے ڈرانے پر ڈر تو سکتے ہیں ۔۔۔

کسی کو بلا وجہ منا نہیں سکتے تو مان تو سکتے ہیں ۔۔

ابو کا ہاتھ نہیں پکڑسکتے تو امی کی گود میں تو سو سکتے ہیں ۔۔

کیوں کہ بچپن کبھی واپس نہیں آتا اسے آپ صرف اپنے بچوں کے بچپنے میں دیکھ سکتے ہیں یا پھر بچہ بن کر محسوس کر سکتے ہیں ۔۔۔

زمانے کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتے تھے اپنے آپ کو حسنین کریمین علیھما السلام  کا گھوڑا بن جاتے تھے ۔۔۔

بچوں کی اچھی خصلتوں  کو دیکھ کر اپنے اصحاب  کو تعلیم فرمایا  کرتے تھے

اور ان کی خصلتوں  کو اچھا سمجھتے تھے

بچوں سے بے انتہا  پیار کرتے تھے ۔

کاش ہم بھی بچے بن جائیں  ۔۔۔ !

You may also like...