Pashemaani: Urdu Article by Sumra Akhlaq

پشیمانی اچھی بات ہے۔۔ لیکن اس کیفیت کو خود پر طاری کر لینا بلکل بھی درست نہیں۔۔ بلکہ اس میں موجود سبق کو سمجھنا اہم ہے جو بند کھڑکیوں کو کھول سکتا ہے۔ ہمیں اس مختصر سی زندگی میں کبھی پشیمانی اپنے کئے گئے فیصلوں پر ہوتی ہے یا تو سرزد ہو جانے والے اعمال ہمیں پریشان کئے رکھتے ہیں۔۔ سوچنے کی بات یہاں یہ کہ کیا ہم ہی ہیں خود پر زندگی تنگ کرنے والے؟ یا ہمارے حماقت بھرے فیصلوں کی یہ کارستانی ہے؟ کیا زندگی کے فیصلے کرنے کا ہمیں کوئی حق حاصل ہے؟ یا یہ حق حالات اور موجودہ پیش آنے والے واقعات کی مٹھی میں ہے یا وقت کی؟ کیونکہ کبھی تو ہمارے فیصلے ہمیں سرخرو کرتے ہیں اور کبھی ناکام کرتے ہوئے ہمیں اپنی حیثیت سمجھا جاتے ہیں۔۔

۔اکثر اوقات بنا سوچے سمجھے کئے جانے والے منصوبے ہمیں خوش بختی کی آغوش میں لے لیتے ہیں تو کبھی بے حد سوچ ساچ سے کئے فیصلے ہمیں دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔۔ کیوں؟ آخر اس سب کی کیا وجہ؟ کافی دماغ لگایا۔۔ اور پھر میں اس موضوع پر کافی سوچ بچار کرنے کے بعد یہ طے کر پائی کہ ہم اور ہماری خوش فہمیاں۔۔ انکی کوئی حد نہیں۔۔

ہمیں ہمیشہ یہ گماں رہا کہ ہم نے اپنا نصیب خود بنایا ہم ہی قدرت رکھتے ہیں تمام کامیابیوں اور بلندیوں پر اپنی ذہانت پر۔ ہمارے ذہن میں بیٹھا شیطان بھی یہی جتاتا ہے کہ ہم ہی اس سیارے کے شاہکار ہیں اور اس دھن میں ہمیں مگن رکھے ہماری جہالت پر خندہ زن ہوتا ہے ۔۔ اور جب رحمان اس دھن میں مست انسان کو سچائی سے آگاہ کرتا ہے تو ساری خوش فہمیاں فنا ہو جاتی ہیں اور اپنا آپ تحقیرانہ محسوس ہوتا ہے۔۔

سچ تو یہ ہے کہ زندگی ایک میدان کی مانند ہے جس میں ہم سب اکیلے اور ایک دوسرے کے لئے بلکل بے معنی ہیں۔۔ کبھی تو اس میدان میں بھیڑ ہونے کے باعث ہمیں خوشی ہوتی ہے لیکن یہ سب رونکین بے تاثیر ہیں اور صرف تماشا۔۔ ایک جانب بے تاثیر بھیڑ اور دوسری جانب وجود کے تنہائی۔۔ ویرانی۔۔

بہتر کیا ہے؟ یہ نہیں کہ تنہائی کو دور کیا جائے؟ اکیلے پن میں بھی سکون ہو؟ تنہائی محسوس نہ ہو؟ ایسی صحبت تلاش کریں جو ہر موسم میں ساتھی ہو جو دل میں صداقت رکھے؟ جو بے ہنگم بے مقصد زندگی کی بھیڑ سے بے دخل کر دے؟

دراصل زندگی بھی کسی میدانِ جنگ سے کم نہیں جہاں قدم بقدم رکاوٹیں اور ٹیسٹ آپکے منتظر رہتے ہیں جن پر آپکا ردِ عمل ہی آپکی اگلی منزل کا تعین کرتا ہے۔۔۔

جبکہ دوسری جانب ہے سکون قلب اور نیک صحبت ۔۔ اور اسکی جستجو۔۔ پر غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اسکا حصول ممکن ہے؟ کیا یہ خدا کا لطف و کرم ہے یا اسکو تلاش کرنا مقصد ہے؟ میرے خیال سے یہ دونوں باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔۔ اگر اللہ ہی نہ چاہے تو کیا ہمیں سکون مل سکتا ہے؟ اور اگر ہم ہی برائی کے عادی بن جائیں تو کیا نیک صحبت ہمارے نصیب میں ہو سکتی ہے؟ نہیں۔۔
اور اگر ہم ہی اسکی تلاش میں محنت اور لگن نہ کریں تو اسکو کبھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔۔ اور پشیمانی بد نصیبی میں بدل جائے گی۔

Pashmaani [Regret]

 

دونوں ہی اعمال کٹھن ہیں کیونکہ وہ راستے جو رحمان تلک لے جائیں آسان نہیں ہوتے۔۔ کم لوگ ہی جا سکتے ہیں جن میں بنی اسرائیل جیسی ناشکری اور کاہلی نہ ہو۔۔! یہی بیماریاں ہمیں سکون کی جانب رجوع نہیں کرنے دیتیں اور سکون تو اللہ والوں کی صحبت میں ہی چھپا ہے۔۔

نہ وہ خالق نوازنے میں کمی کرتا ہے اور نہ ہی ہم ناشکری میں۔۔ اور یہ جاری رہتا ہے۔۔

کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ خدا کے نیک بندے تمام تر حالات میں پر سکون کیسے رہتے ہیں؟ ہر مشکل اور مصائب میں بھی شکر کا کلمہ کیوں پڑھتے ہیں؟ ایسا بھی کیا کہ غم بھی تحفہ لگتا ہے انھیں اور ہر موسم میں وہ راضی رہتے ہیں اپنے رب سے؟

کیونکہ اُنکے سینوں میں قیمتی خزانہ چھپا ہے اور وہ ہے سکونِ قلب۔۔ جسے وہ اپنی غم ہستی کے سمندر میں ڈوب کر اسمیں موجود موتیوں کو تلاش کرتے ہیں۔۔ اور جو ڈوب ہی نہ سکا وہ وجود کی قیمت کیسے سمجھے؟ کیسے خودی میں دستیاب سکون کو ڈھونڈے گا اور اس رحمت سے فیضیاب ہو گا؟ اس رحمت کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف ہماری کاہلی اور نادانی ہے۔۔ اور اس دلدل سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری تمام مشکلات جھٹ سے حل ہو جائیں بلکہ انکو سمجھنے کا زاویہ بدل جائے اور یہ زندگی کا میدان اکیلا بھی ہو تو نعمت محسوس ہو۔۔ جو کہ واقع حقیقت ہے۔۔۔ اور میں ایسی ہی صحبت کی دعا گو ہوں جو مجھے ان راستوں پر لے جائےجن میں صرف راحت و سکون ہے۔۔ اور کچھ بھی نہیں۔۔

 

 

You may also like...