Naimat Aur Azmayish: Urdu Article by Junaid Zafar

نعمت اور آزمائش

اس دنیا کی تم عطا کردہ چیزیں انسان کے لئے اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں۔ مگر ہم بطور انسان اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ نعمت کے ساتھ آزمائش بھی ہوتی ہے۔ ورنہ مجھ میں کیا اچھا تھا کہ میں ایک معاشی حوالے سے قدرے بہتر گھر میں اور اس میں کیا برائی تھی کہ وہ قدرے متوسط طبقے میں پیدا ہوا۔ ہم دونوں میں ایسی کیا بڑائی تھی کہ نا صرف مسلمان گھرانے میں جنم لیا بلکہ بن مانگے ہی ایمان کی دولت بھی مل گئی اور جنت کی نوید بھی اور اس ایک بچے کا کیا قصور تھا کہ وہ نہ صرف ہندو گھرانے میں بلکہ ایک پنڈت کے گھر پیدا ہوا۔ ان سب باتوں کا جواب صرف ایک لفظ میں پوشیدہ ہے”آزمائش”۔ قیامت کے دن ایک صاحبِ استطاعت اور ایک غریب انسان کے سوالات میں بہت فرق ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی امت کے غریب لوگوں کی بخشش کی سفارش میں خود کروں گا۔

کہا جاتا ہے اولاد ایک ایسی پینٹنگ (painting) ہوتی ہے جو ماں باپ خود ڈرا (draw) والدین بھی اپنی پرورش اور لگن کے مطابق ہی اپنی اولاد سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ جبکہ ذمہ دار اولاد بھی وہی ہوتی ہے جو والدین کی امیدوں پر پورا بھی اترے اور ان کی محبت سے سرشار بھی ہو۔ یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ محبت کی منزل کی طرف بڑھنے والی پہلی سیڑھی ادب ہے۔ چاہے یہ محبت والدین سے ہو، اللہ سے یا پھر کسی انسان سے۔ جب انسان ادب کی منزل طے کرلیتا ہے تو وہ بامراد ہوجاتا ہے۔ بامراد اس کو کہا جاتا ہے جو اللہ کا محبوب بن جائے اور آدھی آزمائش یہیں سَر ہو جاتی ہے۔

جب اللہ تعالی کسی نعمت سے نوازتا ہے تو اس کے حضور سجدہ ریز ہو کر دعا کرنی چاہیے کہ میں ہرگز اس نعمت کے قابل نہیں، میں ایک ہارا ہوا انسان ہوں، مجھے اس نعمت کے ساتھ انصاف کرنے کی توفیق عطا فرما اور اس کے نتیجے میں آنے والی آزمائش پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرما۔ اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ تمام انسانوں میں سے سب سے محبوب انسان مجھے وہ ہیں جو ٹوٹا ہوا دل لے کر میری بارگاہ میں آتے ہیں اور توبہ کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور میری نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔ بعض اوقات کسی شخص کو عزت سے اس لئے بھی نوازا جاتا ہے کہ اس کو بہت اونچائی سے گرانا مقصود ہوتا ہے تاکہ وہ دنیا کے باقی لوگوں کے لئے نشان عبرت بن جائے۔ ماضی قریب میں ہم نے پاکستان کے ایسے حکمرانوں کو پوری دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ہوتے دیکھا ہے جن کو خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کو چکنی مٹی سے اسی لئے بنایا ہے تاکہ وہ اس کی آزمائشوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جائے۔ اللہ اسے پھر سے بنائے اور مزید طاقت اور نعمتوں سے نوازے۔ اللہ کی دی ہوئی آزمائشوں میں پورا اترنے کے لیے ضروری ہے کہ خدا کی مخلوق سے اِس ہی کی طرح بے نیاز ہوکر محبت کی جائے ورنہ اگر محبت بانٹنے کی بجائے محبت سمیٹنے میں مگن رہو گے تو اضطراب پیدا ہوجائے گا۔ صوفیانہ کلام میں اس چیز کو بہت اہمیت دی گئی ہے کہ اللہ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی آزمائش پر پورا اترنے کی کوشش کی جائے اور بس اپنا حصہ نبھایا جائے، اس کا حصہ اس پر چھوڑ دیا جائے۔ وہ رحیم ہے، وہ کریم ہے۔ اس مقام پر حضرت میاں خدا بخش رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا ہے:

جے سوہنا میرے دُکھ وِچ رازی
میں سُکھ نوں چُولہے پاواں

اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ اس کی عطا کردہ نعمتوں کے ساتھ انصاف کر سکیں اور ہر آزمائش پر خوشی سے لبیک کہیں اور اس امید سے اس پر پورا اتریں کہ اللہ میری جھولی بھرنے کے لیے مجھے اس آزمائش سے گزار رہا ہے، یہ تو مجھے اپنی رحمت سے نوازنے کا فقط ایک بہانہ ہے۔ آمین

 

 

You may also like...