Ziyadati: Urdu Afsana by Bakhtawar Qadir Shaikh

Ziyadati: Urdu Afsana by Bakhtawar Qadir Shaikh

Manto and Mystry Woman

ثنا کا بابا فیکٹری پر کام کرتا تھا اور ان کی کمائی اتنی نہیں ہوتی تھی کے اس کی بیٹی ثنا کسی بس میں جائے اس کی سب دوست اپنے بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر جاتی تھی تو کچھ بس میں تو کچھ اپنی گاڑی پر لیکن ثنا کے والدین غریب تھے اس لئیے وہ پیدل جاتی تھی اسے کالج جانے میں دس منٹ لگتے تھے

کچھ دنوں کے بعد جب ثنا گھر جا رہی تھی تب راستے میں اسے ایک آدمی ملا ثنا کو کہا تم اکیلی کہاں جا رہی بس میں نہیں گئی چلو آؤ میں تمہیں گھر تک چھوڑ کے آتا ہوں ثنا نے منع کردیا پھر دوسرے دن بھی ایسے ہی راستے میں ملا ثنا نے پھر منع کر دیا
ثنا کو ڈر لگنے لگا کے یہ لڑکا میرے پیچھے پڑ گیا ہے اگر میرے گھر تک پہنچ گیا تو پتا نہیں کیا ہوگا ثنا نے سوچا اگر بابا اماں کو بتایا تو پریشان ہو جائے گے بس میں نہیں بتاتی .تیسرے دن نے اس آدمی نے ثنا کا پیچھا کرتے کرتے گھر دیکھ تک پہنچ گیا پھر شام کو اس کے گھر کی گھنٹی بجائی تو ثنا نے دروازہ کھولا دیکھا کے یہ وہی آدمی ہے جو گھر تک چھوڑنے کے لئیے کہہ رہا تھا اور وہ آدمی اپنا نمبر دے کر چلا گیا ثنا نے اسے فون کر کے کہا تم مجھے کیوں تنگ کر ریے ہو کیوں پیچھے پڑے ہو پلیز مجھے چھوڑ دو
لیکن اس نے کہا ایسے کیسے چھوڑ دوں میں نے تمہیں اپنی رانی بنانے کا سوچا ہے یہ سنتے ہی ثنا نے فون رکھ دیا نمبر بلاک کر دیا
پھر ثنا کچھ دن کالج نہیں گئی وہ آدمی فون کرتا رہا مگر ثنا نے فون نمبر بلاک کیا ہوا تھا پھر اس نے دوسرے نمبر سے ثنا کو فون کیا کہا کے میں تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا بس تم شادی کرنے کے لئیے راضی ہو جاؤ لیکن ثنا نے پھر فون کاٹ دیا پھر اس آدمی کو بہت غصہ آیا اس نے ثنا کو اغوا کیا اور زیادتی کا نشانہ بنا کر اسے باہر جنگل میں پھینک دیا

بہت دیر ہو چکی تھی ثنا گھر نہیں پہنچی پھر ثنا کے والدین کالج گئے پتا کروایا وہاں پتا چلا کے ثنا آج کالج نہیں آئی ثنا کے والدین پریشان ہوگئے ڈھونڈتے رہے اور ثنا کے دوستوں کے گھر بھی گئے مگر کچھ پتا نہیں چل سکا
پھر کچھ لوگوں نے دیکھا کے ایک لڑکی کی جنگل میں لاش ہے اسے دیکھا یہ لڑکی زندہ ہے اور لوگ ثنا کو ہسپتال لے گئے

 

ثنا جب ہوش میں آئی تو ان لوگوں نے والدین کا نمبر مانگا اور ثنا کے والدین کو فون کر کے ہسپتال بلوایا ثنا نے اپنے والدین کو سب کچھ بتایا تب والدین بلکل ٹوٹ چکے تھے اور ثنا کا بھی کوئی حال نہیں تھا
بہت ٹوٹ چکی تھی بند کمرے میں بس اکیلی رہنے لگی روتی رہتی تھی

ایک دن ثنا نے سوچا میری زندگی تو تباہ ہوگئی ہے اب لوگوں سے کیسے نظریں ملا پاوں گی کیوں نہ خود کو مار دوں میں خودکشی کرلوں ویسے بھی مجھے معاشرے والے تانے دے گے مجھے ہی بد کردار سمجھے گے بس مجھے اب خود کو مارنا ہوگا
جب ثنا چھت کی طرف جا رہی تھی جیسے ہی ایک قدم آگے بڑھایا تو سوچنے لگی اگر میں نے خود کو مار دیا تو وہ آدمی اور کتنی لڑکیوں کے ساتھ ایسا کرے گا اور وہ بھی لڑکیاں میری طرح خود کو مار دے گی پھر وہ آدمی جتنا چاہے غلط کرے مطلب وہ آزاد گھومتا ریے

نہیں ایسے کیسے میں اس کو چھوڑ دوں
مجھے جینا ہے اس معاشرے میں سر اٹھا کر جینا ہے
مجھے اس شخص کو سزا دلوانی یے

پھر جب ثنا اپنے کمرے میں گئی اپنے والدین کو لیکر پولیس اسٹیشن گئی مگر وہاں کے پولیس والوں نے پیسا مانگا
ثنا کے والدین نے کہا ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں ہم غریب ہیں پیسے کہاں سے لائے گے پھر پولس والے نے کہا غریب ہو نہ پھر ایسا کرو کے اسی آدمی سے ہی اپنی بیٹی کی شادی کرلو بات ہی ختم پھر لوگ تمہیں کچھ بھی نہیں کہے گے ثنا کے والدین کو بہت دکھ پہنچا اور پولس والے کو کہا ہم غریب ضرور ہے لیکن اپنی عزت کا سودا نہیں کرتے پھر ان پولیس والوں نے ثنا اور اس کے والدین کو دکے مار کر باہر نکالا ثنا اور اس کے والدین گھر واپس گئے بس سوچنے لگی اب میں کیا کروں کہاں جاؤں

والدین نے کہا بیٹا بس چھوڑ دو کہاں کہاں ایسی باتیں سننے کو ملے گی بس اب ہمت نہیں ہے

ثنا نے کہا ٹھیک ہے آپ میرا ساتھ نہ دو بس میں خود اکیلی لڑوں گی اور آپکو پتا ہے میں خودکشی کرنے جا رہی تھی لیکن خود کو روکا سوچا آج میرے ساتھ ہوا ہے تو کل کسی اور کی بیٹیوں کے ساتھ ایسا ہوگا

والدین نے ثنا کو گلے لگا کر کہا بیٹا تم ہمیں چھوڑ کر جا رہی تھی تمہارے بعد کیا ہم جی پاتے بس تم پریشان مت ہو ہم تمہارے ساتھ ہے
پھر ثنا اور والدین ہر روز کسی نہ کسی پولس اسٹیشن پر جاتے تھے مگر اسکا کوئی بھی ساتھ نہیں دے رہا تھا پھر ثنا نے سوچا کیوں نہ میں نیوز والوں کو سب کچھ بتا دوں پھر یہ پولیس والے بھی مانے گے کچھ دنوں کے بعد ثنا نے نیوز والوں کو بھلایا اور انہیں سب کچھ بتایا کے میرے ساتھ یہ سب ہوا جب میں پولیس اسٹیشن والوں سے مدد مانگنے گئی تو انہوں نے مجھ سے پیسے مانگے اور کہا کے اسی آدمی سے ہی شادی کرلو

اور ثنا نیوز والوں کے ساتھ اسی پولیس اسٹیشن پر گئی پھر اس پولیس والے نےثنا کا ساتھ دیا اس آدمی کی تصویر بنوا کر پولیس والوں نے سارے شہر میں تصویر لگا دی اور لوگوں سے جاچ پڑتال بھی کی آخر پولیس اس آدمی کے گھر پہنچی اسے ڈھونڈ لیا اس نے سب کچھ بتایا کے ہاں میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی تھی اور میں نے اور بھی لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا تھا
پھر پولیس اسے جیل گئی تب پولیس والوں نے ثنا اور اس کے والدین سے معافی مانگی اور ٹی وی پر یہ خبر آگئی
نیوز والوں نے کہا ثنا آپ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہے گی

ثنا نے کہا میرے ساتھ جب زیادتی ہوئی بس میں ایک زندہ لاش بنی رہی میں خودکشی کرنے جا رہی تھی مگر میں نے سوچا میں خودکشی کرلوں تو کیا ہوگا مطلب وہ آدمی پتا نہیں اور کتنی لڑکیوں کے ساتھ بھی ایسا غلط کرے گا انہیں زیادتی کا نشانہ بنائے گا
پھر میں نے سوچا کے مجھے جینا ہے اور میرے لئیے ہر ایک پل جینا مشکل تھا معاشرے سے آنکھ نہیں ملا پا رہی تھی
میں لڑکیوں سے کہنا چاہوں گی کے پلیز آپ کبھی ہمت مت ہارے اور غلط کام کے خلاف آواز اٹھائے اور کبھی خاموش مت رہنا

اگر ہم لڑکیاں خاموش ریے گیں تو ہمارے لئیے ہی جینا مشکل ہو جائے گا پھر ہم کہیں نہ آزادی سے گھوم سکتے ہیں نہ ہم آزادی سے اپنی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں

تو پلیز اپنے ظلم اور غلط کام کے خلاف آواز اٹھائے

You may also like...