Khowahir: A Short Film Story on Sacrifice of a Sister: By: Muhammad Ammar Saleem

asian-woman

A Short Film Story on Sacrifice of a Sister: By: Muhammad Ammar Saleem

خواہر

  وقت ایک برساتی بادل کی مانند ہوتا ہے۔ یہ فرش کو کڑی دھوپ سے بچانے چند لمحوں کے لیے نمودار ہوتا ہے اور پھر کسے اور راہ چل دیتا ہے اور جاتے ہی دھوپ پھر سے آتی ہے اور پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ پڑتی ہے۔ زندگی بھی ایک برساتی بادل ہوتی ہے جو آزمائشوں کی تپش کو وقت طور پر تو ڈھانپ رکھتی۔ سکینہ کی زندگی بھی کچھ ایسا ہی منظر دکھاتی ہے۔وہ تین بھائیوں کی اکیلی بہن تھی اور ان سب سے چھوٹی بھی۔ ابھی چھ سال ہی تو اس کی عمر تھی جب اس کی ماں کھیتوں میں کپاس چنتے ہوئے سانپ کے ڈسنے سے جانبر نہ ہو پائ تھی۔ باپ ریلوے کے پھاٹک پر ڈیوٹی کیا کرتا تھا۔ دو کمروں پر مشتمل کچی مٹی کے مکان میں رہائش پزیر تھے وہ سب۔ سکینہ نے بچپن کے ان برسوں میں ہی ماں کے جانے کے بعد گھر کے کام کاج کرنا سیکھ لیے تھے۔ وہی کام جو اس کی ماں نے وقت کے ساتھ ساتھ سکھانے تھے تاکہ وہ اس گھر سے رخصت ہوکر اپنے سسرال ہو جائے تو روایتی طعنوں سے نبردآزما ہو سکے۔ ایک سرکاری پرائمری سکول میں اسے باپ نے داخلہ لے دیا اور وہ پڑھائ میں بھی دلچسپی لینے لگی۔ گھر کی رونق تھی وہ۔ بالکل ایک ٹمٹماتے جگنو کی طرح جسے دیکھ کر ہر ایک کے چہرے پہ مسکراہٹ بس جاتی ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جب کوئ اپنا دنیا سے بچھڑ جائے تو بڑے ہی ان کی کمی چھوٹوں کو محسوس نہیں ہونے دیتے۔ پر سکینہ، وہ تو کچھ الگ ہی کمال رکھتی تھی۔ یہ نونہال جسے ابھی رنگ برنگی چوڑیوں کا شوق پروان چڑھنا تھا، اس نے ایسی قربانیاں دینا نہ جانے کہاں سے سیکھ لیا تھا۔ اس کے وجود نے تینوں بڑے بھائیوں عاصم ، قاصم اور سائم کو ماں کے جانے کا درد ہی نہ محسوس ہونے دیا۔ سکینہ نے ابھی اتنی سی عمر میں ایسی باتیں کرنا شروع کردی تھیں کہ جو کوئ انسان اپنی تمام تر زندگی کا نچوڑ نکال کر بھی نہ کہ پائے۔ اکثر اپنی جماعت میں اچھی کارکردگی پر اسے جو بھی تحفے تحائف ملتے، وہ گھر آکر اپنے بھائیوں میں تقسیم کردیتی اور ان کے چہرے پہ مسکان ہی اس کی خوشیاں کا دارومدار تھا۔ باپ جب تھکا ہارا گھر پہنچتا تو جوان بھائ اپنے کام میں مشغول ہو جاتے اور یہ معصوم سی جان بھاگ کر نلکے سے ٹھنڈا پانی نکال کر اپنے ہاتھوں سے پلاتی اور پھر مزدور باپ کی تھکن سے چور ٹانگوں پر اپنے ننھے ہاتھوں سے مالش کرتی۔ وہ خود کو دنیا کی خوش نصیب بہن سمجھتی تھی کہ جس کے بھائیوں کے ہاتھ اس کے لیے سایہ تھے۔ اس کی آواز جب گھر میں گونجتی تو جیسے گلشن مہک اٹھا ہو۔ پر اس قسمت کی ماری کی معصومیت وقت کے ساتھ بدلتی قسمت کا مقابلہ کرنے کی اہل نہ تھی۔ رفتہ رفتہ اس کے سر پہ رکھے ہاتھوں میں سکت ختم ہو رہی تھی۔ان ہاتھوں میں جب جوانی کا فولاد جمع ہو رہا تھا جو اکثر رشتوں سے جڑے بندھن کو توڑنے میں ہی مرد استعمال کرنا جانتا ہے۔ ابھی اس کی عمر ہی کتنی تھی کہ اسے نئے امتحان کے لیے جس کا کوئ مخصوص وقت بھی معین نہ تھا اور وہ اس میں دھنستی چلی جا رہی تھی۔ اس کے دونوں بڑے بھائ شہر کے بڑے سٹور پر ملازم ہو چکے تھے۔ اب ان کا مقصد اور وقت رشتوں کے بندھن سے ٹوٹ کر آسائشوں کی خواہشوں میں اٹک رہا تھا۔ ان کے لیے تو جیسا اس سے کوئ فرق ہی نہ پڑتا ہو۔ مشکیزے میں پڑا ٹھنڈا پانے تب ہی سلامت رہتا ہے جب تک کاندھوں میں اتنی ہمت ہو کہ وہ اس کا وزن برداشت کرلیں اور اگر چال میں ذرہ بھی خم آجائے تو یہ مشکیزہ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ سکینہ بھی خود کو ایک ایسا مشکیزہ سمجھ بیٹھی تھی جو اب تک اپنے بھائیوں کے کاندھوں پہ سفر کرتی خود کو خوش نصیب تصور کرتی تھی پر اب تو یہ بوجھ اس کے بھائیوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چلا تھا۔ وہ وقت قریب آنے والا تھا جب سکینہ کو اپنا کانٹوں بھرا راستہ خود طے کرنا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ نوکری ملنے کے بعد ہی اس کے بڑے بھائیوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے بڑی خوشی کی بات سکینہ کے لیے کیا ہو سکتی تھی کہ گھر میں اتنے عرصے بعد انہیں کوئ خوشی نصیب ہو رہی تھی۔ وہ اس کی تیاریوں میں لگ گئ۔ ماں کے بچھڑنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ اس کے چہرے پر اتنی مسرت نظر ائ۔ اس کی عمر اب پندرہ برس ہو چکی تھی۔ جب بھی اس کے ذہن میں خیال آتا کہ اب گھر کی ذمےداری صرف اس پر نہیں ہوگی تو وہ اور بھی خوش ہوتی کیونکہ گھر میں اس کا ہاتھ بٹانے دو بھابھی جو آنے والی تھیں۔ شادی کے بعد شروعاتی وقت میں تو سب اکٹھے رہ رہے تھے اور سکینہ کی ان سی خوب نبھ رہی تھی پر وقت بھی وقتی ثابت ہوا۔ سکینہ کو ابھی علم نہ تھا کہ جن لوگوں پر اس کا اندھا اعتبار ہے وہ اس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے تھے۔ باپ ریٹائرمنٹ لے چکا تھا اور بوڑھا بھی ہوچکا تھا ۔سکینہ اپنا فارغ وقت باپ کے ساتھ بیٹھ کر اور اس کی دلجوئی کرنے میں ہی وقف کردیتی۔ دونوں بھابیوں کو یہ منظر ناگوار گزرتا۔ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سکینہ سے بغض کرنے لگی تھیں۔انہوں نے اپنے شوہروں کو بھی باپ کے ساتھ زیادہ بات کرنے سے باز رکھا ہوا تھا۔ سب سے چھوٹا بھائ بھی ان کے جال میں ایسا پھنسا کہ ہر طرف ان ہی کہ گن گاتا نظر آتا۔ اب اکیلی سکینہ بچ گئ تھی جو ان کے شکنجے میں نہ آپائ تھی اور ان کے لیے کباب میں ہڈی بن چکی تھی۔

ایک روز گھر پہ کوئ نہ تھا۔ اس کی بڑی بھابی نے سکینہ کو بازار سے سودا سلف لانے کو کہا اور سکینہ چادر اوڑھے چل دی۔اسے بازار میں چیزیں خریدتے ہوئے کافی وقت لگ گیا۔گھر میں سب پہنچ چکے تھے اتنی دیر میں۔ جب سکینہ واپس آتی ہے اور دروازہ کھولتی تو سب کو سامنے کھڑا پاتی ہے۔ بھائیوں کے چہرے پہ دہشت عیاں تھی۔وہ سوال کرتی ہے کہ سب سے ان حقارت بھری نظروں ے کیوں دیکھ رہے ہیں۔ وہ یہ سن کر سٹیا جاتی ہے جب اس کی بھابھی اس پہ یہ الزام لگاتی ہے کہ سکینہ کسی غیر مرد کے ساتھ بازار میں کھڑی ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی اور اسے یہ بات اس کے کسی رشتہ دار نے آکر بتائ ہے۔ یہ الفاظ سنتے ہی اس کے پائوں سے زمین نکل گئی۔ سامان اس کے ہاتھوں سے گر گیا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کی عزت پر زندگی میں کبھی سوال اٹھے گا اور اٹھانے والے بھی اس کے اپنے ہی ہوں گے۔ وہ گومگو میں تھی کہ آیا یہ حقیقت ہے یا خواب۔ وہ بھاگ کر بھائیوں کی طرف جاتی ہے اور کہتی ہے کہ “بھائ آپ خاموش کیوں کھڑے ہیں، دیکھیں نہ کیا جھوٹا الزام لگایا ہے بھابھی نے مجھ پر، انہیں سمجھائیں نا کہ جو انہوں نے کہا ہے وہ سب الفاظ واپس لیں. یہ کیسے کہہ سکتی ہیں ایسا۔”

پر بھائ کی عقل پہ تو غصہ غالب آچکا تھا۔ اس نے زور سے دھکا دیا جس سے سکینہ کی چادر ایک طرف اور سکینہ دوسری طرف گرپڑی۔ اس کے لیے یہ زندگی کا سب سے دردناک دن ثابت ہو رہا تھا۔ اس کا اعتبار پر سے اعتماد اٹھ چکا تھا۔ اتنی ہی دیر میں اس کا باپ بھی گھر میں داخل ہوا تو بیٹی کو اس حالت میں دیکھ کر اس سے رہا نہ گیا ۔ اس نے اپنے بڑے بیٹے کی قمیض کو پکڑ کر اسے زور سے جھنجھوڑا۔ کاش کہ وہ ان کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑنے میں بھی کامیاب ہو پاتا پر ایسا نہ ہوا۔ باپ کے یہ الفاظ سن کر تو ارش کے فرشتے بھی روئے ہوں گے کہ “اے سفاک بھائیوں، تمہیں شرم تک نہ آئ اپنی معصوم بہن پر الزام لگاتے ہوئے، ارے اس کا تو مان تھے تم اور تمہارا ایمان اتنا کمزور پڑ گیا رشتوں پر”. لیکن جوانی کا خون جب ابل رہا ہو تو احساس سے جڑی ہڈیوں کو بھی پگھلا دیتا ہے۔ بھائ نے دھمکی دی کہ وہ جلد ہی سکینہ کا شادی کا بندوبست کر رہا ہے اور اس کے لیے سکینہ کو برداشت کرنا ناممکن ہے، ہاں وہی سکینہ جس کا ہر پل اپنے بھائیوں کے گن گانے میں مصروف رہتا تھا۔ ابھی اس کی اتنی عمر تھی جتنی عمر میں لڑکیاں اپنے گڈی اور گڈے کی شادی کرواتے ہیں اور عنقریب سکینہ خود گڈی بننے والی تھی۔ وہ کچھ بڑا کرنا چاہتی تھی اورمیٹرک کے اس کے امتحان بھی قریب آن پہنچے تھے۔ اسے مصائب نے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ اس کے باپ کے علاوہ اس کا کوئی سہارا نہ تھا مگر باپ بھی ایسا سہارا تھا جو خود بیمار تھا۔ وہ کبھی اپنی خواہش کو اپنے بھائیوں کے حکم کے خلاف پورا کرنگ کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی اس کے باوجود بھی کہ وہ اس پہ کتنا بڑا ظلم کر رہے تھے۔ اس کی بڑی سوچ نے رشتوں کے وقار کی خاطر چھوٹ سوچ کے حامل بھائوں کے لیے قربانی دی اور خوشی خوشی دی۔ اس نے اپنا سر جھکا دیا۔ کچھ ہی ماہ میں اس کا رشتہ طے ہو گیا۔ باہ کے لیے یہ سب ناقابل قبول تھا پر اس کی سنتا بھی کون۔ وہ اسی فکر میں مزید بیماریوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔ وہ اکیلا ہو چکا تھا اور سمینہ کو بھی اب اس سے جدا کیا جا رہا تھا۔ پھر سکینہ کی ایک ایسے گھر میں شادی کروادی گئی جہاں ایک اور طوفان اس کا انتظار کر رہا تھا۔سکینہ کا شوہر ایک ڈرائیور تھا جو اکثر گھر سے باہر رہتا۔ گھر میں اس کی صرف ساس تھی جس نے شادی کے کچھ هی دنوں بعد اپنے رنگ دکھانا شروع کردیے تھے۔ وہ گھر میں سارے کام سکینہ سے کرواتی اور جب سکینہ کا شوہر گھر آتا تو اسے سکینہ کے بارے الٹی پٹیاں پڑھاتی اور اس کا شوہر بھی اس سے بدظن ہوتا جا رہا تھا۔ کام کر کر کے سکینہ کی حالت جوانی میں ہی ایسی ہونے لگی تھی کہ چہرے پہ بڑھاپے کے آثار نمایاں نظر آنے لگے۔ معلوم نہیں اس نے صبر کا دامن اتنی مضبوطی سے کیسے تھانے رکھا تھا۔ وہ ہنسی خوشی یہ کام کیا کرتی اور ویسے بھی اس کا بچپن ایسے ہی تو گزرا تھا۔اسے کب کسی نے سکھ کا سانس لینے دیا۔ لیکن وہ اس کام کے صلے سے ہمیشہ محروم کردی جاتی بلکہ الٹا اسے مزید پریشان کیا جاتا۔ وہ سب کے لیے دعا کرتی اور کسی کی شکایت اپنے رب سے نہیں کرتی جو سب کچھ دیکھ تو رہا تھا پر ابھی شاید اس کے ہاں دیر تھی۔ ساس دلی طور پر سکینہ کو قبول نہیں کرتی تھی بس وہ اسے مجبوری سمجھتی اور اذیت میں رکھ کر اس بچاری کو یہ خوش ہوتی۔ دوسری جانب اس کے میکے میں بھائوں نے اپنا اپنا گھر شہر میں لے لیا تھا اور اب ان کے لیے مسئلہ تھا تو تھا کہ باپ کس کے ساتھ رہے گا۔ ان کی بیویوں میں سے کوئ رضامند نہ تھا کہ بوڑھے کو اپنے ساتھ گھر رکھا جائے بلکہ اسے یہیں چھوڑ دیا جائے جس کی دیکھ بال کے لیے سکینہ ہی آجایا کرے گی۔ ان سنگدل بیٹوں کو یہ بات بھلی معلوم ہوئ اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ گھر میں اسے اکیلا چھوڑ گئے اور سکینہ جو کہ دوسرے محلے میں رہتی تھی، اطلاع دی گئ کہ اس کے باپ کی عیادت کرنے وہ آجایا کرے کیونکہ اس کے بھائ شہر چلے گئے ہیں۔ پہلے تو اس یقین نہ آیا پھر وہ بھاگتی ہوئی باپ کو لاچار بستر پر پڑے دیکھا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور معافی مانگنے لگی کہ ہم تجھ سے انصاف نہ کر پائے اور نہ ہم حق ادا کرپائے۔ اس کا باپ اسے تسلی دیتا رہا کہ وہ بالک ٹھیک ہے اور اسے کسی کی پرواہ نہیں جب تک اس کی بیٹی، اس کو عطا کی گئ خدا کی رحمت اس کے ساتھ ہے۔ پھر کیا تھا، سکینہ کو گھر سے اب مزید طعنے ملنے شروع ہوگئے۔ اسے کھانا بھی اس کی ساس بمشکل ہی سوکھی روٹی دیتی پر وہ یہ بھی اپنے باپ کے پاس لے جاتی اور پہلے اسے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی اور پھر جو بچ جاتا اس سے اپنی بھوک کو دھوکا دیتی۔ باپ نے جب یہ عالم دیکھا تو سکینہ کو اکثر کہتا کہ “کاش میں نے کسی بیٹی کی نہیں ساری دعائیں بیٹیوں کی مانگی ہوتی۔ یہ کیسا سہارا ہوتے ہیں بیٹے جن سے ہم والدین ایسی امیدیں لے کر خدا سے مانگتے ہیں۔ نہیں چائیے ہمیں ایسے بیٹے جن کے لیے رشتوں کی کوئ قیمت ہی نہ ہو۔ پتر، آج تو جتنی بھی مشکل میں ہے لیکن میرا دل کہتا ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا جب تیرے اشک پہ یہ سب رشک کریں گے۔ جیتی رہ میری گڑیا”. سکینہ باپ کو پھر بھی اپنی ساس کی اور اپنے بھائیوں کی اچھی باتیں ہی بتاتی اور تسلی دیتی کہ وہ ہر حال میں خوش ہے۔ وہ تین ماہ تک روزانہ باپ کی خدمت کے لیے آتی۔ساس نے اب اسے اولاد نہ ہونے پر بھی طعنے کسنا شروع کردیے اور جب بھی گھر کوئی عورت آتی تو اس کے سامنے اسے بانجھ کہہ کر پکارنے لگتی۔ یہ سب سے ذلت بھرا منظر محسوس ہوتا پر وہ پھر بھی عزت کرتی اور ساس کی خدمت میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑتی۔ ایک روز وہ کھانا لے کر گھر گئ تو اس کا باپ ابدی نیند سو چکا تھا اور یہ اس کی دکھتی رگ پر ایک اور ضرب تھی جس کے لیے ابھی وہ تیار بھی نہ تھی۔ اس نے زور زور سے چلانا شروع کیا کہ” ابا اٹھو، تمہاری بیٹی تمہارے لیے کھانا لے کر آئ ہے۔” پر جانے والوں کو بھلا کون روک سکتا ہے، جب روہ ارش پہ پہنچ جائے تو فرش کی آوازیں بے سود ہو جاتی ہیں۔ اس نے کئ بار فون ملایا اور تینوں بھائیوں کو اطلاع کرنے کی کوشش کی پر کسی نے کال سننے کی زحمت تک نہ کی۔ جیسے ہی وہ سکینہ کا پہلا لفظ سنتے تو کال کاٹ دیتے۔ سکینہ نے کسی پڑوسی سے فون ادھار مانگ کر اطلاع مرنے کی کوشش کی پر بے سود رہی۔ وہ جنازے اٹھنے سے پہلے تک ہر ایک لمحہ جستجو میں لگی رہی کہ کسی طرح ان کو آگاہ کردیں اور بھائ جنازے تک تو پہنچ جائیں پر ایسا نہ ہوا۔ وہ باپ کی میت چھوڑ کر خود بھی نہ جا سکتی۔ اس کی آخر تک یہی سدا تھی کہ “رک جائو، میرے بھائ آرہے ہیں وہ اپنے کاندھوں پر خود اپنے باپ کی میت کو سہارا دیں گے پر کاندھا دینا تو دور وہ میت کی شکل دیکھنے سے بھی محروم ہوگئے۔ اگلے روز عورتیں سکینہ سے تعزیت کرنے آئیں تھی، اس کی ساس بھی بیٹھی تھی اور بارش بھی ہو رہی تھی اور بادلوں کی گرج بھی شدید تھی۔ سکینہ کسی سے کچھ نہیں بول رہی تھی۔ اتنے میں زور سے دروازہ کھلا، قاصم ،عاصم اور سائم اپنی خون بھری آنکھوں سے ساری مجمعے کو دیکھنے لگے۔ جب سکینہ نے انہیں دیکھا تو زور سے روتی ہوئ ان کی طرف لپکی۔ “بھائ، بابا چلا گیا”۔ یہ کہہ کر وہ بڑے بھائ سے گلے لگنے ہی لگی تھی مہ قاصم نے سکینہ کو زوردار طمانچہ رسید کیا اور وہ ساتھ پڑی چارپائ سے جا ٹکرائی اور لہو لہان ہو گئ۔وہ کہنے لگے کہ “تم نے باپ کے مرنے کی خبر ہمیں کیوں نہ دی، وہ ہمارا بھی باپ تھا، ہمارا بھی اس پر اتنا ہی حق تھا جتنا تمہارا تھا” یہ منظر دیکھ کر تو آسمان بھی حیران ہوگیا۔ بارش کی بوندیں تھم گئ، بادل کی گرج چمک جیسے غائب سی ہو گئ۔ یہ کیسا منظر تھا۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا تھا اس بھولی لڑکی کے ساتھ۔ اب تو خدا کی لاٹھی ہی کام کر سکتی تھی جو ہوتی تو بے آواز ہے پر آج اس نے عجب کمال دکھایا۔ ساتھ بیٹھی ساس یہ منظر دیکھ کرکانپ اٹھی اور اس نے کھڑے ہو کر ویسا ہی تھپڑ قاصم کے منہ پر دے مارا اور خود بھی اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ اس نے جو کہا پھر وہ آسمان نے سنا ” اے بدبخت مرد، یہ تیری کیسی مردانگی ہے ، تو نے یہ کس پہ ہاتھ اٹھایا ہے، ارے وہ کب تک تیرا اور میرا ظلم سہتی رہے گی۔ میں بھی عورت ہوں،اس پہ میں نے بھی اتنے ظلم کیا لیکن یہ جو تو نے اسے تھپڑ مارا ہے نہ یہ مجھے لگا ہے۔ ارے اس پہ رحم کرو، وہ اکیلی ہو چکی ہے،کونسا ایسا دن تھا جب اس نے تمہارے گن نہیں گائے، کونسا ایسا دن جس دن یہ تمہاری آس لیے نہ بیٹھی ہو۔ میں نے اس سے ساس والا سلوک کیا ،میں تو برباد ہوں گی ہی پر تم جیسے مردوں کو دیکھ کر تو مجھے الللہ کے عذاب سے ڈر لگنے لگا ، تم جواب دو گے۔ اس نے کیا کچھ نہیں کیا باپ کے لیے، اس نے اپنا رزق اپنے باپ کے لیے قربان کردیا، ایسی ہوتی ہے اولاد، ایسی ہوتی ہیں بہنیں، تم جیسے بھائ ایسی بہنوں کے کبھی حقدار نہیں ہو سکتے۔ پتا بھی ہے تمہیں کل اس نے تمہارا باپ کی میت کے ساتھ بیٹھ کر کتنا انتظار کیا، کتنی بار اس نے تمہیں بتانے کی کوشش کی مگر شرم آتی ہے مجھے تم لوگوں کو اس کا بھائ کہتے ہوئے۔ ظالمو کچھ تو انصاف کرو اس کے ساتھ،”. یہ الفاظ جیسے ان تینوں بےضمیر بھائیو کے لیے ایک آفت لے کر آئے اور وہ ساکن کھڑے ہو گئے۔ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور پھر اچانک جلدی سے ساتھ پڑی سکینہ کو سہارا دیا اور کھڑا کیا۔ وہ اس کے قدموں میں گر گئے اور بلک بلک کر معافی مانگنے لگے۔ سکینہ بھی رونے لگی اور چاروں نے سر جوڑ کر خوب رویا۔ وہ جو بادل تھم گئے تھے پھر خوب برسے، خدا راضی ہو گیا تھا۔ شاید ان تینوں کے کیے کی سزا انہیں ملے گی پر جب تک بہن کی دعا ہے وہ بچے رہیں گے۔ اس روز سکینہ کی طبیعت بھی خراب ہوئ۔ اس کی ساس اور بڑا بھائ قریبی ہسپتال لے گئے جہاں اس کی ساس کو ڈاکٹر نے بتایا ” مبارک ہو آپ دادی بننے والی ہیں”۔ پھر وہ ساس گھنٹوں سجدے کی حالت میں پڑی رہی اور اس کے بھائ واپس اسی مکان میں آگئ جسے وہ چھوڑ کر ے گئے تھے۔ سکینہ جیت گئ تھی باقی سب ہار گئ۔”

 

 

You may also like...