Shaitaani Saans – Urdu Article by Nadia Zehri

devil's breath ice cream

devil’s breath ice cream

لفظ شیطانی سانس پڑھ کے دماغ میں کسی عجیب شے کے خیالات آجاتے ہیں، تجسس کی ایک لہر پورے وجود پہ چھاجاتی ہے، کہ آیا یہ کیا ”بلا“ ہے یوں تو راہ چلتے کسی سے ٹکراتے، کسی کی سنتے بہت دفعہ ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں جیسے کہ ”شیطانی سوچ،شیطانی دماغ، شیطانی کی آنت، شیطان کے کان، یا پھر شیطان کی ماں ‘لیکن ایسا لفظ پہلی دفعہ سنا کہ جس میں شیطان کی سانسوں کا ذکر ہورہا ہے، گویا شیطان نہ ہو برابر بیٹھا کوئی شخص جس کی سانسوں کو شیطان کی سانس سے تشبیہ دی جارہی ہو –

لیکن در حقیقت ایسا کچھ نہیں، یہ دو لفظی جملہ کوئی ”بلا“ نہیں بلکہ کسی معروف آئسکریم کا نام ہے جس کو حرف عام میں ”ڈیول بریتھ“ یعنی ”شیطانی سانس“ کہا جاتا ہے، یوں تو آئسکریم کا نام لیتے ہی تصور میں ایک ٹھنڈی میٹھی نرم نرم سی خوش شکل چیز آجاتی ہے جس کو منہ میں رکھتے ہی ایک فرحت بخش احساس ملتا ہے، اور اعصاب ایک دم پرسکون ہوجاتے ہیں، مگر اس آئسکریم جسکا نام ”شیطانی سانس“ ہے کوئی عام آئسکریم نہیں بلکہ کئی اقسام کی مرچوں کا مرکب ہے، اسی لیے اسکا نام ”ڈیول بریتھ“ رکھا گیا ہے، اور شاید یہ نام ایسا کچھ غلط بھی نہیں، کیونکہ اس منفرد اور انوکھی آئسکریم میں، دنیا کی سب سے تیز مرچ ”کیرولینا ریپر پیپر“ شامل کی گئی ہے، جو پوری دنیا کی تیز ترین مرچ ہونے کی وجہ سے کافی مشہور ہے، اور اس مرچی کو کھانے والے کہتے ہیں کہ اسکو کھاتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ حلق سے پگھلا ہوا لاوا اتار رہے ہیں،مرچوں کی تیزی اور حرارت کو ناپنے والے پیمانے ”اسکوویل“ کے مطابق کیرولینا میں میں چودہ سے بائیس لاکھ اسکوویل یونٹ پائی جاتی ہیں جبکہ، اس آئسکریم میں قریب پندرہ لاکھ یونٹس،اسکی تیزی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اسکو سرو کرتے وقت ویٹر ہاتھوں میں دستانے پہنتے ہیں، اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں رہنے والے مارٹن بینڈونی نامی شخص جو کہ آلڈ وچ کیفے اور آئسکریم پارلر کے بانی ہیں نے اس آئسکریم کو ویلنٹائن ڈے کے موقع پر متعارف کرایا انکا کہنا تھا کہ یہ آئسکریم کوئی نئی نہیں انیس سو چھتیس میں اٹلی میں ایک جگہ تھی جسکو ”شیطانی برج“ کہا جاتا تھا، کے آس پاس بہت سے آئسکریم بنانے والی فیملیز رہتی تھیں جو ہر سال اسی پل پر آکے ملتیں اور ایک دوسرے کو حال احوال سناتیں کہ انکا یہ سال کیسا گزرا، اور اگر کسی شخص نے سال بھر میں بہادر و ہمت کا مظاہرہ کیا ہوتا تو اسے مرچوں سے بھری آئسکریم کھانی پڑتی، اسی لیے اس آئسکریم کا نام ”ڈیول بریتھ“ رکھا گیا ہے-

اس منفرد آئسکریم کو کھانا ہر کسی کے بس میں نہیں کیونکہ نا صرف یہ مہنگی ہے بلکہ اس کے ساتھ اسے کھانے کے لیے کسی بھی فرد کو پہلے اسٹیمپ پیپر پر سائن کرنا پڑتا ہے اس کا ایک اسکوپ قریب دو پاونڈ میں کھانے کو ملتا ہے، پاکستانی روپوں میں اسکی قیمت تین سو چوبیس روپے ہے،دنیا کی اس انوکھی آئسکریم نام کے ساتھ ساتھ ذائقے میں بھی بہت منفرد ہے اسکو کھانے سے پہلے ایک ٹھنڈا احساس پورے وجود پہ سرایت کرتا ہے بعد ازاں ایک تیز طوفانی مرچوں بھرا احساس اندر تک دھواں بھر دیتا ہے، مغربی ممالک کی عوام مرچوں سے کئی کوسوں دور بھاگنے کے باوجود اس آئسکریم میں خوب دلچسپی لے رہی ہے – جبکہ اس آئسکریم کی تصدیقی کاغذ میں بہت صاف لفظوں میں ایک عہد نامہ لکھا ہے میں فلاں بندہ بندی اپنی مرضی سے اس آئسکریم کو کھا، کھا رہی ہوں جس میں اگر میں کسی ذاتی زخم یا زندگی کھودینے والے حادثے کا شکار ہوتی ہوں تو یہ میری اپنی ذمے داری ہوگی اسکا آلڈ وچ کیفے سے کوئی لینا دینا نہیں، اس انوکھی آئسکریم کھانے کے لیے عمر کا تعین بھی کیا گیا ہے یعنی اٹھارہ سال سے کم عمر کا کوئی بھی فرد اس آئسکریم کو سونگھ بھی نہیں سکتا کھانا تو دور کی بات اور اس اسٹیمپ پیپر پہ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ آئسکریم ٹباسکو ساس سے کئی گناہ زیادہ اسپائسی ہے –
( ٹباسکو ایک قسم کی مصالحے دار چٹنی ہے جو کہ تیز ترین سرخ مرچوں کہ مختلف اقسام کو ملا کر بنائی جاتی ہے )

ان شرائط کو بخوشی ماننے والا کوئی بھی شخص اس شیطانی سانس کا مزہ لے سکتا ہے، گویا ایک طویل مرحلے کے بعد بلآخر یہ آئسکریم جیب کو خوب ہلکا کرنے کے بعد منہ میں گھل کر شیطانی رقص کرنے پر مجبور کر دیتی ہے-چونکہ مغرب کے لوگ ہم وقت کچھ نیا اور کچھ ہٹ کے کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں تو انکے لیے اس مرچیلی آئسکریم میں دلچسپی لینا کوئی نئی بات نہیں لیکن یہ مرچیلی آئسکریم اپنے اندر پندرہ لاکھ اسکوویل یونٹ پنجنسی (حدت) رکھتی ہے،

جبکہ یہاں یہ بات واضع رہے کہ حد سے زیادہ مرچوں کا استعمال کرنے سے سوزشِ دل، شکم بُری،ہیجان انگیز جلن، چہرے کی سُرخی اور چُھبن کا احساس دن بھر رہتا ہے اسکے ساتھ جب تک مطلوبہ کھانا ہضم نہ تب تک اندرونی ہیجان انگیز جلن سے کسی بھی بشر کی بری حالت ہوسکتی ہے اور یہ احساسات ذرا تیز مرچوں کے استعمال سے ہی پیدا ہوتے ہیں، جبکہ بات اگر اس آئسکریم کی کریں تو اس میں دنیا کی تیز ترین مرچ ”کیرولینا“ استعمال کی گئی ہے جسکے بارے میں مشہور ہے کہ اسکو حلق سے اتارنا ایسا ہے گویا پگھلا ہوا سیسا اتارنا، ان سب باتوں کو جاننے کے باوجود بھی کئی مستانے لوگ بہت ذوق و شوق سے اس آئسکریم میں دلچسپی لیتے ہوئے دکھائی دیئے، جبکہ یہ سال میں صرف ایک ہی دفعہ ویلنٹائن ڈے کے کے موقع پر تیار کی جاتی ہے جس کو کھانے کے لیے کئی من چلے گرل فرینڈز اور بیوی کے سامنے خود کو بہادر ثابت کرنے کے لیے حلق سے بخوشی اتار ہی لیتے ہیں-

ہاں بھئی اب اگر شاہ جہاں کی طرح تاج محل نہیں بنا سکتے تو کیا ہوا، کسی شاہ دل کی طرح مرچیلی آئسکریم تو کھا ہی سکتے ہیں –

“یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لی جیئے
ایک مرچیلی آئسکریم ہے جسے حلق سے اتارنی ہے- “

 

 

 

You may also like...