Sindh ke Sindhoo Ka Katal-e-Aam – By Nadiah Zehri

samina sindhu death

samina sindhu death

 

بنت_ہوا کو نچاتے ہیں سر_محفل ہم۔
کتنے سنگ دل ہیں کہ رسم_ حیا یاد نہیں!

آج فیس بک کی نیوز فیڈ چیک کرتے ہوئے نظروں سے ایک خبر گزری جس میں ‘سندھ کی سِندھُو’ پر بھری محفل میں ہونے والی ظلم کی خبر نظر آرہی تھی ایک سرسری نظر ڈال کر جُونہی فیڈ کو اسکرول ڈاون کرنا چاہا نظریں موت کے بعد اجلے سفید آخری لباس میں ملبوس ثمینہ سندھو کی بے بسی بھرے چہرے پہ گڑھ سی گئیں، کیا نہیں تھا اِس معصوم چہرے پہ؟ دکھ، تکلیف بے بسی اور سب سے بڑھ کر بے خبری،ایسی بے خبری کے جس میں اطمینان بھی شامل ہو، اور یہ اطمینان کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا کہ سریلی آواز کا سحر پھونکتی اس ساحرہ کو کیا خبر تھی کہ وہ ایسے درندہ صفت اور نام نہاد شریف لوگوں کو اپنے فن سے محضوظ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جنہیں نا فن کی قدر نا فنکار کی –

ہے عجب چیز یہ ‘شرافت ‘ بھی
اِس میں شر بھی ہے اور آفت بھی!

میری نظریں ثمینہ کے کفن میں لپٹے وجود پر تھیں جبکہ میری اندرونی کیفیت عجیب سی ہوتی چلی جا رہی تھی وجود پل بھر میں ساکت ہوگیا تھا، ویب سائیٹ کھول کر خبر کی تفصیل پڑھ کر میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے تھے، دل و دماغ ماننے سے انکاری ہوگئے تھے، جبکہ وجود بلکل مفلوج –

خبر ہی کچھ ایسی تھی کہ، ایک بشر کو صرف اس لیے سر عام گولیوں سے چھلنی کردیا گیا کیونکہ وہ دورانِ حمل کھڑے ہوکر اپنی موسیقی سے فرعون صفت زمینداروں کو خوش نہیں کر پا رہی تھی –

تم ظلم کرتے ہو اِس طرح
جیسے کہ میرا کوئی خدا نہیں!

تصور کی آنکھ سے اِس واقعے کو دیکھتی ہوں تو دل کانپ سا جاتا ہے، کتنی مجبور ہوگی وہ چوبیس سالہ لڑکی جو اپنی کوکھ میں اپنا لخت جگر لیے کسی محفل کو رات کے اندھیروں میں اپنی سریلی آواز سے منور کر رہی تھی، لاڑکانہ سے قریب بیس منٹ کی مصافت پر کَنگا المعروف کنگو نامی اس گاٶں میں ایوب کالونی لاڑکانہ سٹی کی رہنے والی گلوکارہ ثمینہ سِندھُو، امتیاز جونیجو نامی شخص کے بیٹوں کے تقریبِ ختنہ پر پرفارمنس دینے گئی تھی، جہاں جونیجو برادری کے علاوہ اُن کے کئی اور دوست احباب محفلِ موسیقی میں شرکت کیئے ہوئے تھے، یہ نجی محفل کنگا گاٶں کے تھانے کے پیچھے زمینوں پہ ہورہا تھا جس میں ایس ایچ او لیاقت علی بھی نشے میں دھت شامل تھا -تخلیق کے مراحل سے گزرتی لڑکی پیٹ کا دوزخ پالنے کے لیے شبِ محفل سجائے آواز کا سحر ضرور پھونک رہی تھی مگر طبیعت ناساز ہونے کے باعث وہ اسٹیج پر نشست سنبھالے ہوئے تھی-

پرفارمنس کے دوران نشے میں دھت لاڑکانہ سٹی سیشن جج کا ریڈر نیاز جونیجو اپنی فرعونیت لیے پر غرور انداز میں حکم صادر کرتا ہے –

” اَڑی کھڑے ہوکر گاٶ کچھ ٹھمکے دکھاٶ”
اِس فرمائش پر ثمینہ بے بسی سے اپنی مجبوری بیاں کرتی ہے-
“سائیں میرے پیٹ میں سات ماہ کا بچہ ہے، کھڑے ہوکر نہیں گا سکتی”
ثمینہ کے جواب پر نیاز جونیجو زمینی خدا بن کر نیا حکم صادر کرتا ہے –
“اڑی ہمیں انکار کرتی ہے سالی اِدھر ہی پیٹ کے بچے سمیت ٹپکا دیں گے”

ثمینہ اِس کھلم کھلا دھمکی پر مصلحت آمیز رویہ اپنا کر گاتے گاتے کھڑی ہوجاتی ہے،گلوکارہ کو اسٹیج پر کھڑے دیکھ کر شرکاء محفل نشے میں دھت نوٹ وارنے کے ساتھ ساتھ جملے بھی پھینکتے ہیں، ہر چند محفل اپنے عروج پر ہوتی ہے کہ، گلوکارہ کی انکار سے اب تک اندر ہی اندر جلتا نیاز جونیجو اپنے قریبی دوست اور اسی گاٶں کا جانا مانا بائیس سالہ بدمعاش طارق جتوئی کو اُکساتا ہے کہ اِس دو ٹکے کی گلوکارہ نے مجھے انکار سے نوازا اور تم فقط دیکھتے رہ گئے – اتنا کہنا تھا کہ رگوں میں دوڑتی جوانی کی گرم خون نے ابلنا شروع کردیا اور کسی کی بے بسی میں ادا کیے گئے جملے گویا دونوں عیاش وڈیروں کو بھری محفل میں اپنی بے عزتی محسوس ہوئے –

دوسری طرف اُم الخبائث کے مدہوشی میں مست شرکاء گلوکارہ کی جانب نوٹ پھینک رہے تھے -ثمینہ اپنی جادوئی آواز میں

سندھی صوفیانہ کلام پیش کر رہی تھی اُس کے لبوں پہ کلام کے یہ بول تھے
“نہ جانے کیسے راضی ہو نہ جانے کس سے راضی ہو
کوئی راجہ کوئی فقیر، یہ تو اُس بازیگر کی بازی ہے”

کلام کے آخری بول ابھی ثمینہ کے منہ سے ادا ہی ہوئے تھے کہ طارق جتوئی نے یکے بعد دیگرے تین گولیاں برسائیں جو سیدھا جا کے ثمینہ کے وجود میں پیوست ہوئیں، اور وہ دھڑام سے اسٹیج پر گرگئی، اسٹیج پر سازندوں کے ساتھ ہارمونیم بجاتا عاشق سموں جو کہ ثمینہ کا خاوند تھا کی چیخیں بلند ہوئیں گویا اُسکی ساری جمع پونجی لٹ گئی ہو،پل بھر میں محفل میں کہرام سا مچ گیا –

کچھ دیر قبل مدہوشی میں جھومتے وڈیروں کا نشہ اڑن چُھو ہوگیا – روتے ہوئے عاشق نے ثمینہ کے خون میں لت پت وجود کو جب چاندکا ہسپتال پہنچایا تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ثمینہ کے پیٹ میں گولی لگنے سے وہ موقعے پر جان بحق ہوچکی تھی – اور کوکھ میں پلتا ساتھ ماں کا بچہ گویا سسک کر کہہ رہا تھا –

“میں ابھی کھلا بھی نہیں تھا کہ تم ظالموں نے مَسل دیا -“

معاشرے میں وابائی مرض کی طرح پھیلے اس فیوڈل سسٹم اور اسکے عیاش وڈیروں نے نہ جانے کتنی ثمیناٶں کی جان لی ہوگی،کیا قصور تھا ثمینہ سِندھُو کا، فقط اتنا کہ وہ ایک عیاش وڈیرے کو انکار کرنے کی جرت کرتی ہے –بس اتنی سی بات پر کوئی زمینی خدا اسے گولیوں سے بھون کے رکھ دیتا ہے، اور افسوس کا مقام تو یہ کہ اس واقعے کے گزرنے کے بعد بھی نشے میں دھت ایس ایچ او لیاقت علی عیاش وڈیروں کو گرفتار کرنے کے بجائے ثمینہ کے ساتھ محفلِ موسیقی میں شریک سازندوں کو منہ کھولنے پر زد کوب کا نشانہ بناتا ہے اور دورانِ محفل لٹائے گئے پیسے چھین کر موسیقی ٹیم میں شامل ایک سازند کو حراست میں بھی لیتا ہے – جبکہ دوسری طرف عاشق سموں بیوی کی ناحق قتل کے بعد غم سے نڈھال پولیس کی جانب سے بھرتی گئی لاپروائیوں کے نتیجے میں جب رات دو بجے نعش لے کر ایف آئی آر کٹوانے تھانے پہنچتا ہے تو سیاہ اور خاکی وردی میں ملبوس قانون کے اندھے رکھ والے مقتولہ کی نعش کو دیکھ کر خود پر نظر اندازی کا چادر اوڑھ لیتے ہیں -اس پر متضاد بڑی دیدہ دلیری سے بنا کسی کاروائی اور ثبوت کے قتل کو ہوائی فائرنگ سے ہونے والا حادثہ بتا کے ایک طرف ہوجاتے ہیں،قانون کے در سے مایوس عاشق اگلے دن انصاف مانگنے کے لیے نعش لے کر لاڑکانہ پریس کلب کے آگے بیٹھ جاتا ہے -اور اندھا قانون یونہی اندھا اور بہرا بنا رہتا ہے، بعد ازاں میڈیا پر خبریں آنے کے بعد انسپکٹر تنویر تنیو واقعے کا ازخود نوٹس لیتا ہے،ایس ایچ او لیاقت کو معطل کرنے کے بعد عاشق کو تھانے بلا کے مرکزی ملزم طارق جتوئی کے خلاف ایف آئی آر درج کرتا ہے جبکہ سیش جج کے ریڈر اور اس قتل کا بنیادی ملزم کو سرے سے بچانے کی کوشش کرتا ہے –

سارے واقعی سے مجھے یہ سیکھ ملی کہ ہم لوگ ایک آزاد معاشرے میں سانس لینے کے باوجود ذہنی طور پر جاگیردارانہ سوچ کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں،یہاں مظلوم کی فریاد سے زیاد ظالم کا ٹھوس اور حکمیہ لہجہ اثر کرتا ہے،مظلوم کی ‘آہ’ لینے کی فکر سے زیادہ جاگیرداروں کے جوتے سیدھے کرنے والے اہلکاروں کو اس بات کی فکر زیادہ ہوتی ہے کہ کہیں ان کے ایک صحیح عمل سے کسی نام نہاد جاہل جاگیردار کی دل آزاری نہ ہو، اور جس مظلوم نے اپنا سب کچھ لٹادیا اُسکی خیر ہے کیونکہ وہ کونسا کسی نامی گرامی جاگیردار کا بیٹا ہے،گویا اس پر جو پہاڑ ٹوٹا وہ کسی کاتے میں نہیں، ہاں البتہ اسکے ہاتھوں کسی جاگیردار کو اگر سوئی بھی چھبتی تو یہ بڑی بات ضرور ہوسکتی تھی ایک غریب کو آدھی عمر بنا ایف آئ آر سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی –

اور افسوس والی بات تو یہ کہ قانون کی وردی میں ملبوس اندھے رکھ والے اس وردی کی پاسداری تو دور قانون سے زیادہ جاگیردارانہ حکم کی محتاج ہیں، عاشق کے بار بار کہنے پر بھی قانون کے رکھ والے اندھے ہونے کے ساتھ بہرے بھی بن گئے اور روتے عاشق کی فریادوں کو سن کر بھی نہ سننے والے نیاز جونیجو جو کہ قتل کی اصل وجہ ہے کا نام ایف آئی آر میں نہیں آنے دے رہے تھے – کہتے ہیں کہ تعلیم سے انسان نہ صرف اپنی سوچ بدلتا ہے بلکہ اُسکی پوری زندگی تک بدل جاتی ہے – مگر ایسے معاشرے میں جہاں آج بھی فیوڈل سسٹم کا راج ہو، ایسا سوچنا قطعی حماقت ہے کُجا کے ایسا ہونا-
کیونکہ جسموں کی آزادی سے زیادہ ذہنی آزادی کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور تعلیم ہمیں یہیں درس دیتی ہے کہ ہر بندہ بشر اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا حق رکھتا ہے، مگر تعلیم کی زیور سے آراستہ یہ لوگ جہالت کی لباس پہنے خود کو کسی اور جہاں کی مخلوق تصور کرتے ہوئے غریب لوگوں کو کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ حقیر سمجھتے ہیں، اور اگر کوئی اس تکبرانہ سوچ کے حامل لوگوں کے خلاف جانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اسے اپنی طاقت کا نشانہ بنالیے ہیں،ان کی مفلوج سوچ کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ایک عورت کو صرف صرف اس لیے بھری محفل میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا کیونکہ وہ انہیں اپنی گِراں حالت کا بتا کے ان کے سامنے کھڑے ہوکے گا نہیں سکتی جبکہ عیاشی کے نشے میں چور یہ جاگیردار اپنے سامنے اسٹیج پر بیٹھی عورت کو اپنا زر خرید غلام سمجھ کر اس سے گانے کے ساتھ ساتھ ٹھمکے بھی لگوانا چاہتے تھے، ایک عورت جو حاملہ ہونے کے باوجود اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے اپنی آواز بیچتی ہے وہ کتنی مجبور ہوسکتی ہے اس بات کو کوئی بھی ذی شعور انسان با آسانی محسوس کر سکتا ہے مگر رحمان کے زمین میں آدام کے بیٹے حوا کی بیٹی کو اپنے خلاف کھڑے ہونے والوں کے لیے عبرت کا نشانہ بناتے ہیں،اور اپنے طاقتور کندھوں پہ دو دو جانوں کا قرض لیے بنا کسی شرمندگی کے سر اُٹھا کر چلتے ہیں–اور انہیں ایسا کرنے پر انکی سوچ اُکساتی ہے اور اس سوچ کے پیچھے ہمارا اور ہم جیسے لوگوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے، فیوڈل سسٹم کے پودے کو پانی دینے والے بھی ہم ہی ہیں اور اسکو پروان چڑھا کر اسکا ترش پھل کھانے والے بھی ہم،چند برس قبل ایک معصوم نوجوانوں کی جان لینے والا شاہ رخ جتوئی حال ہی میں ہم سب کے منہ پر تمسخرانہ مسکراہٹ اچھال کر وکٹری دکھا کر چلا جاتا ہے اور میرا دعوا ہے چند برس بعد طارق جتوئی بھی موچوں کو کھڑا کیئے ہمارے منہ پر وکٹری کا طمانچہ ثبت کرکے چلا جائے گا، اور ہم یونہی خاموش تماشائی بن کے دیکھتے رہیں گے، اور ایسا تب تک چلے گا جب تک ہم اس پودے کو پروان چڑھاتے رہیں گے،گویا ہم خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے لیے ناسور کا درخت اگا رہے ہیں، اگر یہ درخت یوں ہی ہمارے ہاتھوں پروان چڑھتا رہا تو کچھ شک نہیں آنے والے دنوں میں اس درخت کی تعداد اتنی زیادہ ہوگی کہ کسی راہ چلتے چلتے کچھ دیر سستانے کے لیے ہم خود اسی زہریلی درخت کا انتخاب کریں گے جس کو ہم نے خود پروان چڑھایا تھا، اور اسکے سائے میں بیٹھ کر اسکا ترش پھل کھا کے مرجانے والے بھی ہم ہی ہونگے-
کیونکہ قانون قدرت ہے بوئی گئی چیزیں اکثر اسی کے ہاتھوں کٹتی ہیں جس سے بوئی گئیں تھین-لیکن شاید ثمینہ کے قاتل نیاز جونیجو اور طارق جتوئی نہیں جانتے کہ،ایک قاتل کو کسی مسلمان کے قتل پر قیامت میں ایک ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا (یعنی ہر مرتبہ قتل کے بعد زندہ کیا جائے گا اور پھر دوبارہ قتل کیا جائے گا )

اور رسولﷺ کا فرمان ہے قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کردیا جائے گا –

خونِ ناحق کر کے اک بے جُرم کا
ہاتھ ناحق خون میں تم بھر چلے –

دنیا کے نشے میں چور یہ درندے اِس بات سے انجان ہیں کہ انہوں نے اپنے ساتھ کتنا بڑا ظلم کیا،کیونکہ خون اپنے رب سے انصاف مانگتا ہے، اور بیشک میرا رب بہت بڑا منصف ہے!

 

 

You may also like...