Jinnah Ke Naam: Article on Azaadi by Asma Tariq

آزادی مبارک ہو – جناح کے نام

اسماء طارق

گجرات

سلام عرض، امید ہے آپ خیریت سے ہونگے ۔ پاکستان کی سالگرہ ہے، پورا ملک دھوم دھام سے منا رہا ہے حتی کہ ہم نے تو اپنے موبائل فون کی پروفائل اور سٹیٹس پر بھی آپ کی تصویر اور جھنڈا بنا رکھا ہے ۔ ہر ادارے میں کیک کٹ رہا ہے اور پتا نہیں عوام کیا کیا تیاریاں کررہی ہے ۔ بات نہیں مانتے آپکی تو کیا ہوا مگر آپ کے قول سنہری حروف میں لکھوا کر دیوار پر تو ٹانکتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ شیئر بھی کرتے۔ صبح سے پاکستان کے نام نعرے لگا لگا کر گلہ بیٹھ گیا ہے، اس سے زیادہ اور سچی کیا محبت ہو گی. آزادی مبارک ہو آپ کو بہت بہت ۔ اللہ کے فضل و کرم سے اب پاکستان ماشاءاللہ جوان ہو گا، مگر اسکے باسی ابھی بھی بچے ہی ہیں. انہیں کچھ وقت ضرور لگے گا بڑا ہونے میں. خوشی کی گھڑی ہے، اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں.

کوشش کیجئے گا، وہ جو آپکی تصویر والے پانچ پانچ ہزار کے نوٹ ہیں نہ. دو چار وہی بجھوا دیجئے گا. کیا کریں، آج کل تو بس انہی رنگ برنگے نوٹوں کی ڈیمانڈ ہے. جس کے پاس ہیں سب اُسی کے ہیں. آپکے سیاستدان بھی ۔۔اور آپ بھی تو اسی لیے مقبول ہیں ۔

سنا ہے آپ کو وہاں بھی ہماری وجہ سے چین نہیں ۔۔۔ پاکستان کی ہی فکر ستاتی ہے ۔ ویسے اب تو وہاں خوب محفل لگتی ہو گی وہی سارے لوگ ۔ کہیں اقبال کے اشعار تو کہیں شبلی نعمانی کے خطاب تو، کہیں فاطمہ جناح کے مشورے ۔۔گاندھی جی کا بھی آنا جانا ہو گا، ان کے کیا حال ہیں۔ وہ بھی تو وہاں سے سب حالات کو دیکھتے ہونگے ،کیا کہتے ہیں. کل انکے دیس کی بھی سالگرہ ہے.

 ویسے آپ لوگوں نے سوچا تھا، دونوں ملکوں کی دشمنی ایسے چلے گی کہ یہ ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تلے ہونگے ۔۔ امید تو ہے. نئی نسل سمجھ رہی ہے کہ ان لڑائیوں کا فائدہ کوئی نہیں، شاید کچھ وقت تک سمجھ آ جائے ۔اب امید تو رکھ ہی سکتے نہ۔۔ ایک یہی ہمارے اختیار میں ہے ۔

Where did Pakistan go wrong?

Where did Pakistan go wrong?

 اقبال کے وہ نوجوانوں کےلیے لکھے گئے اشعار، جس میں وہ اپنی تقدیر آپ بنانے کا کہتے ہیں جو تو آجکل بس بارہویں کے امتحان یا اگست کے مہینے میں ہی سنائی دیتے ہیں. ہاں تب بھی تو کام آتے ہیں جب کسی سیاستدان نے ہم نوجوانوں کو استعمال کرنا ہو یا کوئی خطاب کرنا ہو۔

 وہاں بھی کیا پل پل کی بریکنگ نیوز ملتی ہے یہاں تو سانس لینے پر بھی ایک عدد بریکنگ نیوز آ رہی ہے ۔ اس وجہ سے عدم برداشت عروج پر ہے کوئی کسی کو سننے کو تیار نہیں۔ سب اپنی سنا رہے ۔ انسان جانور بن گئے ہیں، کوئی محفوظ نہیں.

پاکستان کو بنا کر آپ نے تو ہماری ساتوں نسلوں پر احسان کیا تھا جس کا قرض ہماری آنے والی نسلیں بھی ادا نہیں کر سکتیں. مگر کچھ لوگوں کو آج بھی یہ بیکار لگتا ہے۔ انہیں آج بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان بنایا کیوں گیا. وہ کہتے ہیں کہ یہاں تو ہر طرف بھوک ہی بھوک ہے ، مسائل ہی مسائل ہیں اور فسادات ہی فسادات ہیں۔ بھئی ہم یہاں کیسے رہ سکتے ہیں۔

مگر اصل میں ہم یہ کہتے ہوئے شاید اپنے اعمال کو بھول جاتے ہیں کہ ہم نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا۔۔ جن تعلیمات کے خاطر آپ نے اسے حاصل کیا. ہم نے وہ تعلیمات ہی بھلا دی ہیں۔

وہ سب فرماں ہم نے بهلا دیے ہیں۔ ہم تو تفرقات میں پڑے گئے ۔۔۔ اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے کی بجائے ہم پنجابی سندھی، پشتو اور بلوچی کہلوانا زیادہ پسند کرنے لگے. اپنے ہی بھائیوں کو ذرا سے نظریات کے اختلاف کی وجہ دشمن بنا لیا ۔

آپ کہتے تھے نہ کام اور صرف کام کرنا۔۔ پر ہم نے اسے انگریزی کا calm, calm سمجھ لیا اور اپنے آباو اجداد کی طرح عیش و عشرت میں پڑ گئے. ادھر دنیا ترقی کی منازل طے کر رہی ہے تو ہمیں کیا ۔

 ہم اپنے وطن میں عزت کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں مگر دوسروں کے ملکوں میں جاکر تھکے کھانے کو تیار ہیں۔ کیا ہو سکتا ہے یہاں کام کیسے کیا جائے . لوگ بھی تو مذاق اڑاتے ہیں فلاں چوہدری ہو کر یہ کام کرتا ہے ۔ اور ماشاءاللہ ہمارے سیاست دان آپس کی ناچاقیوں میں اتنا الجھے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس ہمارے لیے ذرا وقت نہیں اور ہم شاہین جنہوں نے مستقبل کو سنوارنا تها، وہ تو اپنے آپ سے تنگ ہیں. مگر امید قائم دائم ہے کہ ہمارے ذریعے امریکہ آسٹریلیا برطانیہ یورپ ضرور سنورے گا.

بجا ہے کہ کافی خرابیاں ہیں یہاں ، وسائل کی کمی ہے، نوکریاں نہیں ہیں مگر پاکستان ہمارا ملک ہے. اسی سے ہماری پہچان ہے اور اسی سے ہماری عزت ہے ۔ ہم حالات کے بہاو میں بہہ گئے ہیں. ہمارے سمجھنے کی دیر ہے. ہمیں ہی اس کی بہتری کیلئے کام کرنا ہے. اس کے لیے کوششیں بھی کرنی ہیں اور اسے اس قابل بنانا ہے کہ دنیا ہم پر فخر کر سکے۔ امید ہے ہمیں یہ سمجھنے میں زیادہ دیری نہیں ہو گی. ہم جلد ہی نیند سے جاگ اٹھے گے اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ۔اب اپ سے اجازت طلب ہے، اس امید کے ساتھ کہ اگلی سالگرہ تک حالات میں بہتری آئے گی. خدا حافظ

You may also like...