Missed Call: Urdu Afsana by Zuraiz Ahmed

Missed Call: Urdu Afsana by Zuraiz Ahmed

مس کال – از ضوریز احمد

” رات کے اس پہر کس نے مس کال ماری ہے؟”

اس نے تشویشناک لہجے میں خود کالمی کی۔ “کیا مجھے کال کرنی چاہیے؟ …نہیں نہیں وہ کیا سمجھے گا کہ رات کے اس پہر میں کیوں جاگ رہا ہوں! لیکن اس نے کال کیوں کی اور وہ بھی اس وقت”۔

وہ ایک الجھن اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت سے گزر رہا تھا۔رات کے تین بج رہے تھے اور دسمبر کے اتاہ اندھیرے کالے آسمان سے سمٹ سمٹ کر زمین کے چاروں اطراف پھیل گئے تھے ۔ وہ اپنے بستر پر لیٹا دن بھر کی تھکن کو یاد کررہا تھا۔ دن بھر کی تھکن جو اس کے خوابوں کی ضمانت تھی، اس کے نیندوں کی دشمن بنی ہوئی تھی۔ وہ انسومنیا کا مریض تھا ۔ دوا لیے بغیر نیند کا آنا محال تھا مگر دوا لینے کی جو اذیتیں تھیں وہ برداشت سے باہر تھیں اس لیے اس کو جاگنا گوارا تھا۔” اس نے مجھے کال کیوں کی؟” ۔ وہ اب بھی اسی الجھن کو سلجھا رہا تھا۔ آخر تنگ آ کر اس نے اس نمبر کو میسج کر دیا۔” یقیناً غلطی سے لگ گئی ہوگی”۔ ایسے وقتوں میں غلطی کا یقین بھی مستحکم ہوتا ہے وگرنہ انسان کہاں اپنی غلطی ماننے واال ہے. پھر اسے وہ سارے ظلم اور زیادتیاں یادآنے لگیں جو اس نے اپنے متعلقین اور دوستوں کے ساتھ کی تھیں ۔ ‘میری وجہ سے ماجد کی نوکری گئی… نرما کو مجھ پر کتنا بھروسا تھا میں نے اس کا بھروسا توڑا… میرے بھائی کا قتل میری وجہ سے ہوا ۔۔۔’

اس کو سب یاد آنے لگا لیکن اس نے فورا اپنے ذہنی انفعالیت کو جھٹک دیا اور اپنا دھیان کہیں اور مبذول کرنے کی کوشش ً کرنے لگا ۔ وہ اسی کشمکش میں تھا کہ صبح کا چراغ روشن ہونے لگا جس کی سفیدی افق کے اس پار ایک خط کھینچنے لگی اور فجر کا وقت داخل ہوگیا ۔ اب وہ اپنے بستر پر سے اپنی بے خوابی اور سرگرانی لیے حس ِب معمول اٹھا، نہایا،کپڑے بدلے، ناشتہ کیا اور دفتر کو نکل پڑا۔ یہ اس کا روزکا معمول تھا ۔ دن بھر دفتر میں کام کرتا شام کو گھر لوٹتا ، کپڑے بدلتا ، کھانا کھاتا اور بستر پر لیٹ جاتا۔ بستر پر لیٹے لیٹے کئی خیاالت اس کے ذہن میں آنے لگتے جو دن بھر کی مسافرت کی تحویل سے آزاد ہوکر اکثر ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے لگتے تھے لیکن وہ جلد ہی ان جھروکوں کو بند کردیتا تھا ۔ اسے ماضی سے نہیں بلکہ اس چیز کے زندہ ہونے سے ڈر لگتا تھا جسے وہ کئی سال پہلے مار چکا تھا ۔ وہ ابھی اپنے خیالوں اور بے خوابی میں مگن تھا کہ اس کا فون بجنے لگا۔ وہی رات کے تین بج رہے تھے اس نے اپنا فون اٹھا کے دیکھا تو وہی انجان نمبر اسے پھر سے کال کررہاتھا ۔ اس نے فون اٹھایا “کون ہے؟ کیوں فون کررہے ہو بار بار؟” آگے سے کوئی جواب نہیں آیا ۔اس نے پھر وہی سوال کیا
لیکن پھر کوئی جواب نہ آیا ۔اس نے غصے میں آکر فون بند کردیا ،”پتا نہیں کہاں کہاں سے آجاتے ہیں۔ اتنی رات کو کون فون کرتا ہے بلکل بھی تہذیب نہیں ” وہ غصے سے بھرگیا اور تھوڑی دیر آنکھ بند کرکے لیٹ گیا کہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا ۔

اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا “کوئی بہت ہی ضرورت مند ہوگا جو رات کے اس پہر مجھے کال کرتا ہے ۔ ہللا جانے ایسی کیا اسے حاجت ہے اس کی۔۔” وہ متعجب ہوا ۔ “لیکن پھر وہ دن میں رابطہ کیوں نہیں کرتا اور اگر اس کے پاس میرا نمبر ہے تو یقیناً میرا پتہ بھی معلوم ہوگا یا میرے معموالت کی کسی قدر خبر ضرور ہوگی وہ مجھ سے ملنے بھی تو آسکتا ہے۔ لیکن ایسا کیوں نہیں کرتا کیوں رات کے اس پہر مجھے کالیں کرتا ہے اور جب میں کال اٹھالیتا ہوں تو بولتا بھی نہیں ہے ۔” وہ ایک دبدھے کا شکار ہوگیا۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیال آنے لگے جو رفتہ رفتہ اس کے پچھلے گناہوں کی یاداشت کا سفر کرنے لگے ۔” کہیں ماجد تو نہیں ۔ بے چارہ روزگار کی بھیک مانگنے کو مجھے کال کررہاہوں گا۔۔۔۔۔کہیں ارسالن ادھار کے لیے کال تو نہیں کررہا ۔۔” اس کے ذہن میں پھر سے وہ ماضی کے گناہ واضح ہونے لگے۔ وہ گھبرا گیا اور پھر سے ان خیاالت کو جھٹکنے لگا۔

اگلے روز دفتر سے واپسی پر اسے اپنا ایک پرانا دوست مال پہلے وہ چوکننے ہوا لیکن بڑی مشکل سے خود کو سنبھاال اور اپنے دوست سے مال۔ کافی عرصہ پہلے ہی اس کے اکثر دوست اس سے تعلق منقطع کرچکے تھے۔ وہ اس تر ِک تعلق کی وجہ خوب
جانتا تھا لیکن خود کو مورِد الزام ٹھہرانے کے بجاۓ انہی کو قصور وار ٹھہراتا تھا۔ شاید اس بے اعتنائی کی وجہ بھی وہی انفعالی قوت تھی جس کے زندہ ہونے سے وہ گھبراتا تھا اور جسے وہ کئی سال قبل اپنی دانست میں گال گھونٹ کے مارچکا تھا ۔

“کل ظہر میں ارسالن کا جنازہ ہے۔ ”
” جنازہ؟ یہ کب ہوا ؟کیا ہوا اسے ؟ ۔۔۔”

“کیا بتاؤں دوست ۔ زندگی کبھی کسی کے ساتھ بھال نہیں کرتی۔ بچارا کئی روز سے پریشان تھا۔ کاروبار کرنا چاہتا تھا کہیں سے رقم نہیں ملی شاید تمہارے پاس بھی آیا تھا۔۔۔۔”

“پھر۔۔۔ رقم ملی؟”

” نہیں قرض تو نہیں مال بچارا مایوس ہو کے لوٹا کہیں نوکری ملی نہ کاروبار کا بندوبست ہوا .ایسے کنگلے کے ساتھ کوئی کیا بسر کرتا .بیوی بھی چھوڑ کر چلی گئی ۔ کل کی بات ہے میں اس کے گھر گیا .کچھ پیسوں کا بندوبست ہوا تھا سو اسے دینے
جارہا تھا۔ گھر پہنچا تو وہ ایک جگہ بے ہوش پڑا مال۔ میں نے اسے ہوش میں النے کی کوشش کی لیکن وہ نہ اٹھا تو فوراً ایمبولینس کا انتظام کیا اور اسے ہسپتال پہنچا دیا ۔ ڈاکٹر نے کہا کہ بہت critical حالت ہے ۔ شام تک وہاں رہا، ڈاکٹر نے کہا دماغ
کی رگ پھٹنے کی وجہ سے وہ کومے میں چال گیا ہے ۔ بچنے کے چانسز ناپید ہیں ۔ یہ سننا تھا اور آج کا دن صبح خبر ملی کہ ِن جبر ستاں سے منہ موڑ گیا۔”

اسے ایک زور کا دھچکا لگا گویا اس کی سانس رکنے والی ہے ۔۔۔۔ دو جانیں اس کے سر ۔۔۔۔ وہ شدید صدمے کی حالت میں گھر پہنچا۔ کھانا کھایا نہ کپڑے بدلے سیدھا بستر پر لیٹ گیا ۔ اس کا دل تیز دھڑک رہا تھا اور سر سائیں سائیں کررہا تھا ۔ اس بار اس
کی سوچوں کے سفر کا آغاز ہی پرانی یادوں سے ہوا ۔ اس کو وہ تمام خوشگواری لمحے یاد آنے لگے جو اس نے اپنے دوست ارسالن کے ساتھ گزارے تھے ۔ ارسالن اس کے بچپن کا دوست تھا۔ ان کی یاری کافی پرانی تھی ۔ ہم جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ ہم محلہ بھی تھے ۔ ساتھ جاتے ساتھ آتے ۔ کبھی کبھار راستے میں ٹھہر کے اپنے عالقے کی مشہور چاٹ کھاتے اور خوب باتیں کرتے ۔اس کو وہ تمام باتیں یاد آنے لگیں جو بچپن میں اس کے ساتھ گزری تھیں پھر یاد کے آئینے نے ایک منظر آگے کا دکھانا شروع کیا اور اس نے خود کو جوانی کے پر فتنہ مگر حسین دور میں پایا ۔ ان کی دوستی تو حس ِب توفیق قائم تھی مگر مالقاتوں کی کڑیاں سبک ہوگئی تھیں اور پھر وہ وقت تھا جب ارسالن پر قیِد غم کے ایام شروع ہوۓ تو اس نے قرض کے مطالبے پر اسے جھڑک دیا اور اس سے یکسر تعلق منقطع کردیا ۔ اسے اپنا یہ بہیمانہ رویہ یاد آیا۔ آج اس میں کسی خیال کو جھٹکنے کی
ہمت نہ تھی ۔ وہ یاد کرتا جاتا اور اپنے گناہوں پر شرم سار ہوتا جاتا ۔ اس کا دل اور آنکھیں دونوں بھر آئے تھے۔ وہ اپنی دھڑکنوں میں بے انتظامی محسوس کررہا تھا ۔ وہ سانس لے رہا تھا مگر ایسا لگ رہا تھا کہ ہوا کو پھیپھڑوں تک رسائی میسر
نہیں ہورہی ۔ اتنے میں اس کے فون کی گھنٹی بجنے لگی ۔ اس نے فون اٹھا کے دیکھا تو وہی نمبر جو پہلے اسے کئی بار کال کرچکا ہے اسے دوبارہ کال کررہا ہے ۔ اس نے سسکیاں باندھتے ہوۓ کال اٹھائی “کون؟”

“تم مجھے نظر انداز کیوں کررہے تھے ؟”
وہ چونک گیا۔ “کک۔۔۔کو۔۔کون ؟”
” تم مجھے نظر انداز کیوں کررہے تھے؟”

یہ آواز اس نے کہیں سن رکھی تھی مگر کہاں اسے ٹھیک سے یاد نہیں آرہا تھا ۔ وہ اس آواز سے مانوس تھا مگر یکسر انجانا بھی ۔

“کون بات کررہا ہے؟”
“تم نے مجھے نظر انداز کیوں کررکھا تھا؟”

” میں نے؟ ۔۔۔ میں نے کئی بار آپ کی کال اٹھائی لیکن آپ نے بات نہیں کی ۔۔کئی بار آپ کو میسج کیا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا…”

“تم نے میری کال اٹھائی نہ کبھی مجھے میسج کیا مگر آج..”
آپ نے غلط نمبر پر کال مالئی ہے.”
“کیا بول رہے ہیں؟ یقیناً

 “نہیں میں نے بلکل صحیح جگہ اور صحیح وقت پر کال مالئی ہے ۔ تم نے مجھے پچھلے کئی سالوں سے نظر انداز کر رکھا تھا مگر آج۔۔ آج میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گا۔ تم نے اپنے ساتھ بہت برا کیا ہے۔ انسان جب کسی کے ساتھ برا کرتا ہے وہ گویا
اپنے ساتھ برا کرتا ہے کیونکہ تمہارا کیا ہر عمل تم پر لوٹتا ہے جو تم نے دوسروں کے ساتھ کیا وہ تمہارے ساتھ ضرور ہوگا ۔ خدا کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتا مگر پلٹنے کو کبھی دیر نہیں ہوتی اب بھی موقع ہے توبہ کرلو۔ حقیقت سے نہ بھاگو ، خود
کو جھوٹی تسلی نہ دو۔”

اور کال بند ہو جاتی ہے۔ وہ ششدر رہ جاتا ہے۔ ‘یہ کون تھا؟ اس نے کیا کہا! مگر۔۔مگر جو کہا سچ کہا ۔۔ اس نے سچ کہا کہ میں ہمیشہ حقیقت سے ڈرتا رہا ہوں اور اپنے آپ سے چھپتا رہا ہوں ۔ میں نے ہمیشہ خود کو جھوٹی تسلی دی ہے کہ میں نے جو کیا
صحیح کیا۔ سچ کہا اس اجنبی نے’ تمہارا کیا ہر عمل تم پر لوٹتا ہے جو تم نے دوسروں کے ساتھ کیا وہ تمہارے ساتھ ضرور ہوگا ۔ خدا کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتا مگر پلٹنے کو کبھی دیر نہیں ہوتی اب بھی موقع ہے توبہ کرلو۔” وہ اس اجنبی کی باتیں دہراتا جارہا تھا اور پچھلے کیے گناہ یاد کرتا جارہا تھا ۔ اب اس کے آنسو اور شتابی سے بہنے لگے اور دھڑکنوں کی بدنظمی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ دل بند ہونے کا امکان تھا۔ اسی اثنا میں اس کے فون کی گھنٹی بجی تو اس نے دیکھا کہ نرما کا میسج تھا۔ اس نے میسج کھوال،” میں نے تمہیں معاف کیا۔ سمجھو کہ جو کچھ تم نے کیا اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں تھی لیکن اب جو تم کرو گے وہ تمہاری غلطی ہوگی.” اسے گویا ڈھارس ملی، دھڑکنیں تھمنے لگیں مگر آنسوؤں کی رفتار پہلے ڈے بڑھ گئی تھی جو کہ شکر گزاری کی عالمت تھی۔ وہ انابت ، ندامت اور شکر کی رو میں بہتا جارہا تھا یہاں تک کہ نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

 

 

 

Urdu Ghazal

 

 

You may also like...