The flip side of Online Examinations during Coronavirus 

The flip side of Online Examinations during Coronavirus

تحریر : مریم عباس

راولپنڈی

کرونا وائرس کا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لینا ، حالات کا دن بہ دن بدترین ہوتے چلے جانا اور اسی اثناء میں لاک ڈاؤن کے نام پر تعلیمی اداروں کا بند ہو جانا۔ ہر تعلیمی ادارے میں آن لائن ایجوکیشن

سسٹم کا آغاز جب کیا گیا تو ایک بہت بڑا المیہ کھل کر سامنے آیا کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ کمی اساتذہ کی ہے ۔

جی ہاں!!!آج کل ہر گلی میں ایک سکول ہے اور ہر سکول میں تقریباً 10 سے 15 کی تعداد میں اساتذہ موجود ہیں لیکن میں یہ بات واضح کرتی چلوں کہ صرف ایک عہدے پر فائض ہوجانے سے کوئی خود

پر استاد ہونے کی مہر تو لگوا سکتا لیکن حقیقی معنوں میں استاد بننا ہر کسی کہ بس کی بات نہیں۔

 

Education Policy

جب آن لائن ایجوکیشن شروع ہوئی تو یہ بات نمایاں ہوتی چلی گئی کہ کون استاد ہے اور کون صرف ایک عہدے پر فائز ہے۔ جب آن-لائن کلاسز کا آغاز ہوا تو سب اساتذہ نے تعلیم دینے کا فریضہ بخوبی ادا کیا ۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرا تو یہ بات دیکھنے کو ملی کہ اب اساتذہ بھی اس طرح سے پڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ کبھی آخری منٹ میں کہہ دینا کہ آج مصروفیت کے باعث کلاس نہیں لی جائے گی تو کبھی کلاس کو ملتوی کہ موڈ mode پر ہی لگا دینا ۔ اسائنمنٹ پر اسائنمنٹ دیتے چلے جانا اور جب مارکس لسٹ منظر عام پر آتی تو ایک بات واضح ہوجاتی کہ یہ مارکس ہماری محنت سے کی گئی اسائنمنٹ کا جائزہ لیے بغیر دیے گئے ہیں۔

 پورا ایک سال آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہر ادارے میں ایک اصول لازم ہونا چاہیے کہ سب اساتذہ کو ورک شاپس کے ذریعے مکمل طور پر سکھایا جائے کہ استاد کا مقام کیا ہوتا ہے تا کہ وہ صحیح طریقے سے تعلیم اور علم دینے کا فریضہ سر انجام دیں۔ اور صرف یہی نہیں تمام ٹیچنگ اسٹاف کو یہ بات بھی باقاعدہ طور پر بتانی چاہیے کہ کس طرح امتحانات میں پرچہ بنایا جاتا ہے تاکہ کسی بھی طالب علم کا مستقبل داؤ پر نا لگے۔

ایک بات سے تو ہر کوئی متفق ہوتا ہے کہ اگر ایک جماعت میں بیس کی تعداد میں طالب علم ہیں تو سب کی ذہنیت کا پیمانہ ایک جتنا نہیں ہوتا ۔ کسی کا آئی-کیو لیول زیادہ تو کسی کا کم ہوتا ہے۔ لیکن آن-لائن امتحانات میں ایک نہایت افسوس ناک پہلو سامنے آیا کہ ہمارے اساتذہ پرچہ بناتے ہوئے صرف دو باتوں کا خیال رکھتے ۔

اول تو یہ کہ وہ پرچہ اپنے ذہنی معیار کے مطابق بناتے ہیں اور اس ڈر سے کہ پوری جماعت انٹرنیٹ کا استعمال کرکے جواب نا دہ دیں اس لیے وہ پورا پرچہ Conceptual Questions کا ہی بنا دیتے ہیں جن کے بارے میں وہ آن-لائن کلاسز میں سمجھانا تک ضروری نہیں سمجھتے ۔ اور صرف اپنی ذہنیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے پرچہ بناتے ہیں اور یہی تصور کرتے ہیں کہ یہ سوال تو بہت آسان ہیں جو کہ کم سے کم وقت میں کیے جاسکتے ہیں۔

دوم یہ کہ وہ پرچہ بناتے ہوئے صرف ان طالب علموں کو مدِنظر رکھتے ہیں جو کے ذہین ہوتے ہیں ۔ انھی کی ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے پرچہ ترتیب دیا جاتا ہے ۔

اس سب میں سب سے زیادہ نقصان وہ طالب علم اٹھاتے ہیں جو کہ ذہنی طور پر اتنے ذہین نہیں ہوتے کہ وہ ایک محدود وقت میں ان تمام سوالات کے جوابات بالکل درست دہ سکیں۔ آن-کلاسز میں بھی ان پر توجہ نہیں دی جاتی کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کرسکیں نا صرف امتحانات میں بلکہ باقی سرگرمیوں میں بھی۔

اس لیے خصوصاً ان طالب علموں کے لیے ایک ایسا اصول مقرر ہونا چاہیے کہ پرچہ بناتے ہوئے استاد 60٪ ساٹھ فیصد پر مبنی ایسے سوالات دہ جو کہ ہر ذہنی معیار کا طالب علم حل کرسکے اور باقی 40٪ چالیس فیصد ایسے سوالات دیے جائیں جو کہ ہر طالبِ علم کو اپنے دماغ کے بہتر استعمال میں مشغول کردہ ۔

یہی ایک طریقہ ہے جس سے بہت سے طالب علموں کے ڈوبتے مستقبل کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔ اور اب جب کہ اللّٰہ کا کرم ہوا ایک بار پھر سے تمام تعلیمی اداروں کو دوبارہ تمام تر سرگرمیوں کے لیے کھولا جارہا ہے تو امید ہے کہ یہ تعلیمی نظام پھر سے اچھے طریقے سے چل سکے ۔ ہر استاد پھر سے اپنے مقام کو پہچانے گا اور تعلیم فراہمی کا فریضہ اچھے سے سرانجام دہ سکے گا ۔ اور اسی طرح ہر استاد ایک حقیقی معنوں میں استاد کہلائے گا۔

You may also like...