پاگل – اردو افسانہ – علی ایاز

Manto and Mystry Woman

Manto and Mystry Woman

 ہفتے کو شام چار بجے جب مختار کی آنکھ کھلی تو اس نے ایک عجیب منظر دیکھا اسکے چاروں طرف ایک ہی پوشاک زیب تن کئے ہوئے مرد و عورت چل پھر رہے تھے، کچھ ڈنڈا پکڑے جلاد نما آدمی ان پر مسلط تھے۔ مختار یہ سب دیکھ کر حیران ہو گیا اور اسی حیرانی کے عالم میں وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا ان ڈنڈے والے آدمیوں میں سے ایک آدمی سے اس نے اس جگہ بارے میں پوچھنے پر اسے پتہ چلا کہ اس کے گھر والے اسے صحت یابی کے لئے یہاں چھوڑ گئے ہیں جس کا نام “مینٹل ہسپتال” ہے۔ مختار کے نزدیک وہ بالکل صحیح اور پر طرح سے تندرست تھا، اس پر اسکے گھر والوں کا اسے یہاں چھوڑنا اسے بہت عجیب لگا لیکن مختار ایک بہت کھلے ذہن کا مالک تھا تو سس نے اپنے گھر والوں کے اس فیصلے کو جلد ہی قبول کر لیا اور ہسپتال کے باقی پاگلوں کے ساتھ گھلنا ملنا شروع کردیا۔

 دراصل مینٹل ہسپتال کے دو حصے تھے ایک جہاں مکمل پاگل رہتے تھے اور دوسرا جہاں وہ لوگ رہتے تھے جو کچھ حد تک صحیح ہیں یا تندرست ہو کر زیر معینہ ہیں۔ مختار کو دونوں حصوں میں جانے کی اجازت تھی کیونکہ وہ بالکل بے ضرر تھا۔ ابتدائ دنوں میں اسکا کمرہ ہسپتال کے اس حصے میں تھا جہاں پاگل رہتے تھے لیکن پھر اسے وہاں سے شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، مختار ایک اچھے اخلاق کا مالک تھا اور پاگل، زیر معینہ مریض اور گارڈ بھی اسکے دوست تھے سو مختار کو یہ آزادی دی گئ کہ وہ تین چار زیر معینہ مریضوں میں سے کسی بھی ایک کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ چنانچہ مختار نے کوئ فیصلہ کرنے سے پہلے ان سب کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا سوچا۔ سب سے پہلے وہ امجد صاحب کے کمرے میں گیا، امجد صاحب فوج کے ریٹائرڈ جنرل تھے جب مختار نے ان کے ساتھ کمرہ بانٹنے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا، انکی وجہء نفی تعسب تھا یا وجہ کوئ اور تھی یہ مختار کو پتہ نہ  چلا لیکن مختار نے امجد صاحب کو کافی حد تک مغرور اور اکھڑ مزاج پایا، وہاں سے دھتکارنے کے بعد مختار شاہ صاحب کے پاس گیا وہ ڈاکٹر ہوا کرتے تھے یا انجینئر یہ پتہ نہیں لیکن مختار کو یہ پتہ تھا کہ شاہ صاحب کا تعلق شعبہ سائنس سے تھا، چنانچہ مختار شاہ صاحب کے پاس تشریف لے گیا اور ان سے بھی اس نے اسی خواہش کا اظہار کیا شاہ صاحب نے کافی منت سماجت کے بعد اسے اپنے کمرے میں رہنے کی اجازت دے دی، مختار نے شاہ صاحب کو اپنے پیشے سے کافی ایماندار پایا لیکن ساتھ ہی وہ بہت خود پسند اور خود غرض بھی تھے، اسکے ساتھ ساتھ وہ پست حوصلہ اور خود اعتمادی سے عاری آدمی تھے اور کچھ ہی روز میں ڈسچادج ہونے والے تھے مطلب انتظامیہ کے مطابق وہ ذہنی طور سے تندرست ہوچکے تھے، مختار موقع پاتے ہی وہاں سے نکلا ظاہر ہے ایسے مفلوج سوچ انسان کے ساتھ تو بس ایک دوسرا مفلوج سوچ انسان ہی رہ سکتا ہے۔ وہاں سے فرار حاصل کرنے کے بعد وہ حاجی میاں کے کمرے میں گیا، انکے کمرے کا ماحول بڑا ہی روحانی اور مذہبی تھا اور وہ خود بھی خاصے مذہبی تھے، نماز پنجگانہ، نوافل، تلاوت مختصراً کافی مذہبی تھے۔ مختار نہایت ہی ادب اور احترام سے انکے کمرے میں داخل ہوا اور انسے بھی اس نے اپنی اسی حاجت کا ذکر کیا، حاجی صاحب نے نہایت ہی خوش الہانی سے مختار کو کمرے میں رہنے کی اجازت دے دی اور اس سے گفتگو فرمانے لگے، ان سے گفتگو کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ حاجی صاحب ایک بہت تنگ نظر انسان تھے اور نقطہ چینی کرنا انکا پسندیدہ کام تھا، ہر وقت دوسروں کو لعن طعن کرنا انکا مشغلہ تھا اسکے علاوہ ان میں ایک اور بہت خطرناک عادت تھی وہ اپنی آسانی یا کمیوں کے دفاع میں مذہبی دلائل پیش کر کے اپنے آپ کو صحیح ثابت کرتے تھے، حاجی صاحب کے بعد مختار ایک اور صاحب کےکمرے میں گیا جو کبھی ادیب ہوا کرتے تھے اور اخبار کے لئے لکھا کرتے تھے ان کے ساتھ وقت بسر کرنے پر مختار نے انہیں بڑا منافق طبیعت پایا وہ جس کے ساتھ ہوتے اسی کے ہو لیتے اور دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے قیمتی الفاظ استعمال کرتے تھے، چنانچہ مختار بہت مایوس ہو کر وہاں سے بھی چلا گیا۔ مختار اپنے کمرے میں جو پاگلوں والے حصے میں تھا لیٹ کر سوچنے لگا کہ اسے یہاں ٹھیک ہونے بھیجا گیا ہے یا پاگل ہونے۔

You may also like...