Zindagi Tere Sadmay: Urdu Satire [Tanz] by Asma Tariq

زندگی تیرے صدمے  – اسماء طارق

رات کو خواب کچھ زیادہ دیکھ لیے تھے تو آنکھ تھوڑی دیر سی کھلی……. اٹھتے ہی موبائل مبارک کی زیارت کرنے کا شرف حاصل کرنا تو لازمی ہے نہ تو ہم نے بھی وہی کیا…. مگر کیا…. جناب والی وہاں میسج تھا…… یہ کوئی عام میسج نہیں تھا…… اتنا حسین میسج ہم نے زندگی میں نہیں دیکھا……. ہمارے اکاؤنٹ میں کسی اللہ کے نیک بندے نے دو ہزار روپیہ بھیجا تھا……. ہم اس ان دیکھے مسیحا کے شکر گزار تھے، اس کے متعلق جاننے کی کوشش بھی کی مگر ندارد……..نمبر ہماری اپروچ سے باہر تھا…..

اس احسان پر ہم حیران تھے مگر سچ بتائیں تو اندر لالچ جاگ چکا تھا جو خوشی سے سرشار تھا…. اب بیٹھے بیٹھائے کسی کو دو ہزار مل جائیں تو وہ وہ خوش بھی نہ ہو کیا…. ہمیں یاد آیا ایک بار پہلے بھی، ایک مسیحا نے یہ مہربانی کی تھی پر وہ تو سو روپیہ تھا مگر اس کے بعد بھائی نے جو عزت افزائی کروائی تھی وہ قابل بیان نہیں… البتہ بھائی نے توبہ ضرور کی کہ آئندہ تو میں نے اپنی سگی بہن پر بھی یہ مہربانی نہیں کرنی……….. خیر چھوڑیں پرانی بات یہاں بات مختلف تھی….

ابھی خوشی محسوس کر ہی رہی تھی کہ مس کالز پر نظر پڑی وہاں اسی نمبر سے کئی کالز تھیں…. بس سمجھ آ گئی کہ بیڑا غرق ہو چکا زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں معاملہ گڑ بڑ ہے…. بھئی بندے سے اگر نیکی ہو گئی ہے تو اسے دریا میں ڈالو یوں اس کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں نہ …… خیر ہم نے آرمی اور کمانڈوز دونوں کو بیک وقت تیار کرنے کی ضرورت سمجھی …. کسی کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے…… آخر ہمت کر کے ہم نے اس نمبر پر مس بیل دی….. اب پیسے تو ہمارے پاس تھے نہیں…… ضرورت ہی نہیں، ہم نے کونسا کسی کو کال کرنی….. بھئی ہماری بیزاری کا یہ عالم ہے کہ بیزاری بھی ہم سے بیزار ہے….. یہاں ہم سے آئی ہوئی کالز نہیں اٹھائی جاتیں…. ہزار بار سوچنا پڑتا اٹھاوں کہ رہنے دوں کوشش یہی ہوتی کہ کسی طرح بچ ہی جاوں…. وہ کیا ہے کہ کسی عجیب سے ناشاعر نے

کہا ہے..

لمبی باتوں سے مشکل سوالوں سے بچتا ہوں

اس لیے خاموش رہتا ہوں

واں واں… داد تو بنتی ہے…. ہاں تو خیر بھلا ہو موبائل کمپنی والوں کا جو بھائی صاحب کو مس بیل پہنچ گئی اور ان کی جان میں جان آئی…. وہ بیچارے تو رو چکے تھے اپنے دو ہزار کو اور اب مجھے بد دعائیں دے دے کر آہیں بھر رہے تھے………. ایک سیکنڈ نہیں گزرا تھا کہ محترم کی کال آ گئ…. انہوں تصدیق کی کہ یہ دو ہزار روپے میری حق حلال کی کمائی ہے تو بہن مہربانی ہوگی مجھے واپس کر دیجئے……بس میں سمجھ گئی، اب یہ دو ہزار مجھے ہارٹ اٹیک دیتے ہوئے جانے والے ہیں…. دل پر پتھر رکھ کر مجھے انہیں جانے ہی دینا تھا، ویسے بھی سیانے کہتے ہیں جانے والے کو کوئی نہیں روک سکتا….. یہ سیانے کون ہیں یہ ابھی دریافت کرنا ہے…..

خیر بھائی صاحب فوراً بھاگ کر اپنے محلے کے دکان دار کے پاس گئے اور انہوں نے اپنے طریقے کار سے ظالم حکمران کی طرح ہم پر ظلم کرتے ہوئے.. روپے واپس لے لیے….. پیسے واپس کیا گئے ….. بھائی صاحب جن کی پہلے آواز نہیں نکل رہی وہ اب زندہ ہو چکے تھے……. اب محترم پوچھنے لگے میری بہن رہتی کہاں ہے….. بہن اگے ہی دو ہزار کھو چکی تھی….. صدمے سے دوچار تھی……فورا بولی آپ کا مسئلہ حل ہو گیا نہ چلیں اب فون رکھ دیں…

. بھائی بیچارے شرمندہ ہوگئے…… خیر دعائیں لیتے اور دیتے ہوئے فون کٹتا ہے…. میری طرف والی دعائیں کچھ اچھی نہ تھیں سو بیان نہیں کرتے ….. اور پھر میں اپنے سا منہ لے کر بیٹھ گئی…… بھئی مانتے ہیں ہمارے نہیں تھے پیسے…. مگر ہمارے پاس تو رہے…. ہمارے موبائل میں جانے کتنی دیر آرام فرمایا انہوں نے…. اب ہم تو ان پیسوں کو ایک پل کےلیے اپنا مان چکے تھے…. ہم نے تو یہ بھی سوچ لیا تھا کہ ان کو اڑانا کیسے ہے……مگر کیا ہے کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے….بس صبح صبح یہ حادثہ ہمارے ساتھ رونما ہو گیا….. اب اس غم میں ناشتہ کس کم بخت سے کیا جانا….. ایسے میں پانی کی چند بوندیں ہی گلے سے اتر جائیں تو بڑی بات….

 

 

Asma Tariq - Ravi Magazine

 

You may also like...