Tabdeeli Aur Dandey Wali Qaum: Urdu Article by Shabbir Ahmad

تبدیلی اور ڈنڈے والی قوم – حصہ دوئم

یہ وہی ماسٹر اکبر ہے جنہوں نے دیر سے حاضری کی وجہ سے مجھے بھی ڈنڈے والی قوم کا فرد ہونے اور اس بات پہ فخر محسوس کرنے پہ مجبور کر دیا۔

گزشتہ بیان شدہ احوال کے بعد مزید ہونے والی تلخ روداد بیان کرتا چلوں۔ تلخ سے قطعا٘ مطلب تلخ کلامی ہے۔ بلکہ جو کچھ اور جیسے کچھ اس کے بعد ہوا وہ تلخ ضرور تھا۔

مجھے ایک ہونہار کم اور مستعدی زیادہ طالبعلم کی طرح ایک اور ماسٹر ( نام= ماسٹر اصغر) کے انتظار کا کہا گیا جو پہلے ماسٹر اکبر کی طرح لیٹ تھے اور انہے بھی میرے جیسے کسی خدائی خدمتگار کے وساطت سے جلدی پہنچنے کی طلب تھی۔

خیر پندرہ منٹ کے اضطرابی انتظار کے بعد دوسرے ماسٹر اصغر بھی آئے اور ہمارے ساتھ ہو لیے۔ میں واپس اپنے گھر اور وہ اپنی منزل مقصود کی طرف گامزن ہوئے جو کہ میرا ہی گاؤں تھا مطلب وہ دونو ماسٹر میرے گاؤں کے بچوں میں اپنی قابلیت اور فہم کے مطابق تعلیم بانٹ رہے تھے۔

دونو کی آپس میں بات چیت شروع ہوئی جو روزمرہ کے حالات سے ہوتے ہوئے کسی پارٹی کے تذکرہ کی طرف گئی جو کہ ان کی باتوں سے محسوس ہوئی کہ ماسٹر اکبر کی طرف سے کسی مذہبی تہوار کیلیے دی جا رہی تھی۔

اس مذہبی تہوار پہ جن لوگوں کو بلوایا جا رہا تھا وہ خالصا٘ سیاسی اور ادارتی اثرورسوخ والے لوگ شامل تھے۔ اس بلاوے میں ایک شخص قابل ذکر ہے جو متعلقہ ادارے کا آفسر ہے جس کیساتھ ماسٹر اکبر کی کسی رپورٹ کے حوالے سے تلخ کلامی ہو چکی یے۔ اور ان صاحب کو اتنے سیاسی اور ادارتی بااثر لوگوں میں بلوانے کی صرف ایک وجہ کہ ان پہ اپنے اثرورسوخ کی دھاک بیٹھائی جائے کیونکہ ماسٹر اکبر کچھ عرصے بعد ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اور ماسٹر اصغر کی طرف سے ہوں ہاں اور کوئی اصلاحی جواب نہ دینے پر ہی اکتفا کیا گیا۔

یہاں ایک بات جو بتانا بھول گیا وہ ماسٹر اکبر اور ماسٹر اصغر کی عمریں جو بلترتیب 45 اور 35 کے لگ بھگ تھیں۔

ہمارے ملک کے معمار جب ایسا رویہ رکھیں گئے جس میں ذاتی مفاد کی خاطر شخصی اور مذہبی ہتھکنڈے استعمال ہوں اور بحث میں شامل دوسرا شخص کسی اصلاحی سوچ اور ممانعت کی سعی سے دور رہے تو ایسے اساتذہ سے پڑھ کہ کوئی کیسے توقع کرے کے عمر و عثمان جیسے لیڈر پیدا یوں گے۔ ایسے میں میر جعفر اور میرصادق ہی پیدا ہوں گے۔

ذرا سوچیے

You may also like...