Pardesi from Punjab: Article by Irum Masood Malik

Pardesi from Punjab: Article by Irum Masood Malik

 

بیٹے جب مجبور ہوتے ہیں تو وہ پردیسی کہلاتے ہیں

 

میری کم سن بیٹی جسے پیدا ہوتے ہی اپنے ماموں کی شفقت بھری گود نصیب ہوئی بہت سا پیار ملا اور بے تحاشہ توجہ ملی ۔ ابھی اس کا شعور پختگی کی جانب گامزن بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ وقت ایا جب اسے اپنے ماموں کو موبائل فون کے پردے کے پیچھے دیکھنا پڑا ۔عجیب منظر تھا وہ فون سے مخاطب کرتے ہوئے ماموں کو دیکھتی اور دوسری دفعہ عجیب سوالیہ نظروں سے ارد گرد موجود لوگوں کو دیکھتی ۔اس کی کمسن سوالیہ نظروں میں اس کی عمر اور سمجھ سے کئی گناہ بڑے اور گمبھیر سوالات موجود تھے

 

migrants

 

ان سوالوں کے جواب اس وقت شاید میرے پاس بھی موجود نہ تھے ۔لیکن اب میں اسے بتانا چاہتی ہوں کہ اس کے ماموں اور ان کے جیسے کہیں اور نوجوان خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے منظر سے پردہ پوش ہو جاتے ہیں ۔کسی کے کندھوں پر بیمار بزرگ ماں باپ کا بوجھ ہے تو کسی کے سر پر گھر بیٹھی جوان بہن کی شادی کا بوجھ ہے کسی کے سر قرضوں کا بوجھ ہے تو کسی کے سرفرضوں کا بوجھ ۔ان سب فرضوں کو بوجھ کی فہرست میں لانے والے اسباق کی فہرست دن بدن طویل ہی ہوتی جا رہی ہے ۔دن بدن بڑھتے ٹیکس پیٹرول ڈیزل کے نرخ سیاست کا غیر مستحق قانون کی بدنظمی وغیرہ وغیرہ اور  وغیرہ ۔

 

ایک جملہ بہت دفعہ سننے کو ملا ہے مگر  مگر ہمیشہ مجھے یہ جملہ شاعرانہ سا لگا کہ 

پنجاب کی ماؤں کو یا تو شہید ملے ہیں یا پردیسی

۔مطلب مختصر یہ ہےکہ ان بیچاری ماؤں نے یا تو بیٹے میدانی جنگوں کے لیے نظروں سے دور کیے ہیں یا پھر معاشی جنگوں کے لیے پردیس کی طرف رخصت کر دیے ۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے یہ شاعرانہ  لگنے والی بات اب ہر دوسرے پاکستانی گھر کے روداد ہے ۔

 

کسی ماں کا بیٹا پردیس  نہ ہو 

مجبوری میں چھوڑا اپنا دیس نہ ہو۔

سر پر غربت کا اسیب نہ ہو

جھوٹے سیاسی وعدوں کا فریب نہ ہو۔

سکول سے نکلا بیٹا یا گھر بیٹھی کنواری بہن نہ ہو

پیچھے پڑی بے بسی  کی ڈائن نہ ہو۔

بستر لگی دکھ درد کی ماری ماں نہ ہو

خطرے میں عزت والے باپ کا مان نہ ہو۔

عرصے سے در پہ بیٹھی اس کی مانگ نہ ہو

نام و نصب مال و زر کی تنگ نہ ہو۔

کسی ماں کا بیٹا پردیس  نہ ہو

مجبوری میں چھوڑا اپنا دیس نہ ہو۔

 

قلم کار  – ارم مسعود ملک 

You may also like...