Sailaab Mein Mujh Par Kya Guzri: By Ubaid Sahil

سیلاب میں مجھ پر کیا گزری
عبید ساحل

آپ حضرات نے اپنے ٹیلیویژن سکرین یا موبائل فون کے سکرین پر سیلاب کی تباہ کاریاں تو دیکھی ہونگی۔ لیکن ذرا سوچیے کہ خدانخواستہ آپ کو سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو کیسا محسوس ہوگا۔

چلیں میں آپکو اپنی صورتحال بتا دتیا ہوں۔ میرا تعلق خوبصورت وادی سوات کے علاقے بحرین سے ہے۔ وادئ سوات پہاڑوں میں گھرا ایک خوبصورت علاقہ ہے اور یہاں دریائے سوات بھی بہتا ہے۔ طغیانی دریائے سوات میں آئی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے ندی نالوں نے بھی سیلابی شکل اختیار کی تھی۔ یہ 25 اور 26 اگست کی درمیانی رات تھی۔ اور اس رات سیلاب نے سوات کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ اس سے پہلے سوات اور خیبرپختونخواہ میں سپر سیلاب آج سے ٹھیک 12 سال پہلے 2010 میں آیا تھا۔ جس نے سوات کا نقشہ ایسے بدلا تھا کہ ہمیں پرانے سوات کو بناتے بناتے ابھی 12 سال ہی ہوئے تھیں کہ ایک مرتبہ پھر سوات کا نقشہ بنیادوں سمیت غرق آب ہوگیا

25 اگست کے دن طغیانی کی شدت اتنی زیادی نہیں تھی۔ دریائے سوات کا بہاؤ تیز اور اونچا ضرور ہوا تھا لیکن اسے سیلاب کہنا مناسب نہیں تھا لیکن پھر رات کو اہل سوات نے قیامت خیز مناظر دیکھے۔لوگوں نے رات 12 تک انتظار کیا کہ اگر سیلاب کا کوئی خطرہ ہو تو ہم محفوظ مقامات پر منتقل ہوسکے لیکن جب بارہ بج گئے اور کسی بڑے سیلاب کا کوئی نام و نشان نہیں تھا تو لوگ سو گئے۔ ابھی دو گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ چیخ و پکار سنائی دیا اور لوگ ڈر کے مارے نیند سے جاگنے لگے۔ ارد گرد دیکھا تو قیامت کا سماں تھا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ کئی عمارتیں اور رہائیشی گھر گر چکے تھیں۔ یہ عالم دیکھ کر لوگوں نے اہنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات تک پہنچنا شروع کیا۔ ایسے

bengal-floods

میں مساجد سے اعلانات کی آوازیں گوجنے لگی اور بتایا جانے لگا کہ دریا کنارے افراد گھر کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہوجائے۔ ہمارا علاقے کی زیادہ تر آبادی دریا کنارے ہی آباد تھی۔ سیلاب کو دیکھ کر ہر طرف خوف وحشت پھیل چکی تھی۔ مرد حضرات گھر بار کے فکر میں کھوئے ہوئے تھیں۔ خواتین بچوں کو سنبھالنے اور ضروری دستاویزات اور زیور وغیرہ بریف کیسز سے نکالنے لگے۔ بچے دہشت کے مارے دھاڑیں مارنے لگیں اور اس عالم میں لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑا اور دریا کے ظلم سے دور کہیں ہناہ لینے لگے. یہ رات سوات والوں کیلیے قیامت سے کم نہ تھی

صرف اس ایک رات ہمارے علاقے میں تقریبا 20 عمارتیں غرق آب ہوئیں۔ ہمارے لوگوں کا کروڑوں کا مالی نقصان ہوا۔ اگلے دن یعنی 26 اگست کو تقریبا ہمارے علاقے کا ایک تہائی آبادی والا حصہ سیلاب سے متاثر ہوا۔ ٹھاٹھیں مارتا آسمان کو چھولینے والے دریائے سوات کے عزائم اچھے نہ تھے۔ اس دوران تقریبا ہمارے علاقے کی آدھی آبادی نے اپنے گھر بار چھوڑ کو دریا سے دور علاقوں کا رخ کیا۔ دن بھر لوگ دریا کنارے کھڑے بے بس اس عظیم دریائے سوات کے ظلم و ستم کو تک رہے تھیں جو پہلے اس علاقے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا لیکن اب اپنے حدوں کو پھلانگ کر انسانت کو غرق کرنے پر تلا ہوا تھا۔ یہ پورا دن صرف سیلاب کے تھمنے کے انتظار میں گزرا۔ لیکن سیلاب تھا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ لوگ اپنے سامنے موجود سوات کے حسین نظاروں کو تباہ ہوتے دیکھ رہے تھیں لیکن کسی میں بھی یہ ہمت نہ تھی کہ وہ ذرا عظیم دریائے سوات کو چھو کر دکھاتے۔ شام کے وقت ذرا موسم بدلنے لگا تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا کہ شاید اب موسم ٹھیک ہوجائیگا اور سیلاب تھم جائیگا۔ لیکن رات کو پھر زبردست بارش شروع ہوئی اور لوگوں کے آرزو ٹوٹ گئے

پھر اگلے دن بھی شام تک بارش ہوئی۔ اور آج بھی یعنی 27 اگست کو کئی سارے گھر اور عمارتیں سیلابی رلے میں بہہ گئیں۔ ابھی تک راستے بند ہونے کی وجہ سے کوئی امداد نہیں پہنچی تھی۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ پناہ گاہوں تک رسائی حاصل کر رہے تھیں۔ صرف ہمارا علاقہ تین حصوں میں کٹ چکا تھا۔ یہ تینوں حصے آپس میں پلوں کے ذریعے جڑے ہوئے تھیں لیکن سیلاب میں سارے پل بہہ گئے تھے۔ اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ نیٹ ورکس کی بندش کے باعث لوگ کچھ ہی فاصلوں میں کمیونیکیشن سے محروم رہ چکے تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم پتھر کے زمانے میں پہنچ چکے ہو۔ جو علاقے کٹ چکے تھیں وہاں سٹورز اور بازار بھی نہیں تھیں۔ جو تھوڑے بہت تھیں بھی وہ سیلاب میں ڈوب چکی تھیں۔ اس لئیے ان علاقوں میں خوراک کا قحط پڑا ہوا تھا۔ اور ہھر ہم نے دیکھا کہ ان کٹ شدہ علاقوں کے لوگوں نے پہاڑوں کے راستوں سے پیدل چل کر تقریبا 10 کلومیٹر دور کے علاقوں سے خوراک اور دوسری ایشیا اپنے کندھوں پر لاد کر گھروں تک پہنچائے کیونکہ قریبی بازارں کے تمام راستے بند تھیں۔ آپ ذرا سوچیے کہ آپ کے گھر میں خوراک ختم ہوچکا ہو اور آپ کے بچے کھانا مانگ رہے ہو

اور آپکو دس کلومیٹر علاقے سے خوراک اور آٹے کی بوریاں کندھوں پر لاد کر گھر پہنچانا پڑے تو کیسا لگے گا۔ ہمارے علاقےکا سارا سسٹم اس طرح خراب ہوا ہے کہ اب اسے ٹھیک کرنے میں مہینے لگ جائیں گے۔ نہ بجلی اور نہ ہی پانی کا کوئی سسٹم ہفتوں بلکہ مہینوں تک ٹھیک ہوجائیگا۔ اور باقی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بجلی اور پانی کی عدم دستیابی کا عام زندگی پر کتنا اثر پڑتا ہے۔ یہ صرف میرے علاقے کی داستان ہے۔ آپ کو پاکستان کا ہر دوسرا گاؤں ہر دوسرا شہر پانی میں ڈوبا ملے گا۔ موجودہ سیلاب سے اب تک تین کروڑ تیس لاکھ لوگ متاثر ہوچکے ہیں اور قومی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا %30 فیصد علاقہ پانی میں ڈوبا پڑا ہے۔ اور اب جس وقت میں یہ کالم لکھ رہاہوں اس وقت تک 1200 جانوں کا ضائع ہوچکا ہے۔

You may also like...