Madari: Urdu Theatre Play by Muhammad Ammar Saleem

Madari: Urdu Theatre Play by Muhammad Ammar Saleem

مداری

قلم کار: محمد عمار سلیم

گائوں کی مسجد میں اعلان ہوا کہ ٹھیکیدار کے گھر آج پورے گاؤں کو کھانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ گائوں اس سڑک کے کنارے تھا جو شہر کو جاتی تھی۔ ابھی اعلان ہونے کی دیر تھی جب ٹھیکیدار کی تین کنال پہ مشتمل حویلی گائوں کے واسیوں سے کھچا کچھ بھر گئ۔ ایک طرف پلیٹوں میں نمکین چاول بھر بھر کر ڈالے جا رہے تھے اور دوسری جانب لوگوں کو ایک قطار میں بٹھایا جا رہا تھا۔ حویلی کی چوکھٹ سے ہجوم داخل ہو رہا تھا اور بچے بوڑھے جوان سبھی شامل تھے۔ ان میں ایک مداری بھی آتا دکھائ دیا جس نے کاندھوں پہ بندر بٹھا رکھا تھا اور حلیے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے دونوں نے طویل عرصے سے کچھ نہ کھایا ہو۔ جب ان کی نظر ان چاولوں کی دیگ پہ پڑی تو مداری نے سر اونچا کیا ہاتھ آسمان جانب کیے اور خدا کا شکر بجا لایا۔ اسے دیکھ کر بندر بھی وہی کرنے لگا جو اس نے مالک کو دیکھا۔مداری نے بندر کو کاندھوں سے نیچے اتارا اور ڈگڈی ساتھ رکھ کر تھیلے سے برتن نکالا جس میں وہ تماشہ دکھانے کے بعد اجرت وصول کرتا تھا۔ وہ برتن لیے اس جانب چل دیا جہاں چاول تقسیم ہو رہے تھے۔ بندر اپنے مالک کا انتظار کرنے لگا جو اس مڈبھیڑ میں کوشش کر رہا تھا کہ اسے برتن میں کھانا ملے۔ آخر تگ و دو کے بعد اسے کھانا مل ہی گیا اور وہ واپس بندر کی طرف پہنچا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے بندر کو چاول کھانے لگا۔ بندر نے بھی مالک کو اپنے ہاتھوں سے چاول کھلانا شروع کیے۔ دونوں نے آج کئ روز بعد سیر ہو کر کھانا کھایا تھا۔ مداری نے بندر کی طرف ایک مسکراہٹ کی نظر وار کی جس کے بعد دونوں کے ہاتھ دعا کے لیے آسمان جانب ہو لیے۔ ابھی دعا کے لیے جڑے ہاتھ جدا نہ ہوئے تھے کہ ریچھ کی آواز سنائی دی۔ وہ بھی اپنے مالک کے ساتھ حویلی کی چوکھٹ سے داخل ہوتے نظر ائے۔ دونوں مداری گرم جوشی سے ایسے ملے جیسے عرصہ دراز سے ایک دوسرے سے بچھڑے ہوں۔ یہاں بندر بھی ریچھ کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا کیونکہ انسانوں کی بستی میں اسے آج کوئ اپنا ملا جس سے وہ دل کی باتیں کرسکتا تھا۔ دونوں مداری اپنے ساتھیوں یعنی ریچھ اور بندر کو ایک کونے میں باندھ کر دوبارہ خیرات لینے چل دیے کیونکہ ریچھ بھی بھوکا تھا اور اسے بھی کچھ کھانا تھا۔ بندر نے ریچھ کی طرف گہری نظر دوڑائ تو ریچھ کا چہرہ مرجھایا نظر آیا۔

 

madaari

 

بندر بولا: او بھالو یار خیریت تو ہے۔ جنگل والے بھالو تو ایسے نہیں دکھائ دیتے جیسی تیری حالت ہوئ پڑی ہے۔ سب خیریت تو ہے نا؟ مالک تو تنگ نہیں کرتا تجھے۔ تیری حالت دیکھ کہ تو ترس آرہا ہے۔

ریچھ: بس یار بندر آج کل زندگی گزار رہا ہوں سڑکوں پہ۔ تو خود بتا بھلا ہمارا ان انسانوں میں کیا کام ہے۔ ہم۔تو آزاد مخلوق ہیں یارا۔پر وقت بہت مشکل آن پڑا ہے۔

بندر: بات تو تیری ٹھیک ہے۔ لیکن تو ہوتا کہاں ہے اور آج یہاں کیسے۔؟

ریچھ: مالک کے ساتھ پچھلے دس سال سے شہر میں گھوم رہا ہوں۔ آج تو بس مالک کی روزی نہیں لگی تو اب گھر واپس جارہے تھے تو راستے میں ہی یہ اعلان سنا کہ کہیں خیرات ہے۔ پھر تو تو جانتا ہے کہ ایسے ہی موقع پہ پیٹ بھر کہ کھانا ملتا ہے ہمیں اور مالک کو بھی۔ تو بس یہیں دوڑتے ائے۔

بندر: کیا مطلب تیرا؟؟ شہر میں بھی روزی نہیں ملتی مالک کو۔ میں نے تو سنا ہے شہر کے لوگ تماشہ بھی زیادہ شوق سے دیکھتے اور کھانا بھی ڈھیر سارا تا ہے۔

ریچھ: بندر وہ زمانے گئے یار جب کبھی ہم گلی محلوں کی رونق ہوا کرتے تھے۔

بندر: ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ مجھے بھی مالک شہر لے کہ جاتا رہا ہے تب تو بہت رونق ہوا کرتی تھی۔

ریچھ: بندر ہم حیوان ہے اور انسان کے لیے رونق۔ جب انسانوں میں احساس ہوا کرتا تھا، جب وہ بچوں کو گلی محلوں میں جانے سے کوئ نہیں روکتا تھا کیونکہ کسی کو یہ خطرہ نہیں ہوتا تھا کہ انسانوں کے روپ میں بھی درندے پھر رہے ہیں جو بچوں کو حوس کا نشانہ بناتے ہیں۔

بندر: یار یہ بات تو بالکل ٹھیک ہے تیری۔ میں پہلے سمجھتا تھا کہ ایسے گھنائونے انسان صرف شہروں میں ہوتے ہیںیکن اب تو ہر جگہ منڈلاتے پھر رہے ہیں۔ تو کون ہمت کرے گا کہ اپنے بچوں کو ہمارا میلا دکھائے اور ہمارا بھی پیٹ بھرے۔

ریچھ: بندر بات صرف ان درنودوں کے حد تک کی نہیں۔ ان انسانوں کے اپنے بھی رویے تبدیل ہو گئے ہیں جیسے جیسے زمانہ بدلا ہے۔

بندر: اور نہیں تو کیا۔۔۔شہر تو شہر اب تو یہاں دیہات کے لوگوں کو دیکھ۔کر یقین نہیں آتا کہ یہی وہی لوگ ہیں جو دس سال پہلے ہوا کرتے تھے۔
ریچھ: مجھے پندرہ سال ہو چکے یہاں انسان میں آئے ہوے۔ پہلے میں سرکس میں کام کرتا تھا جب ان کے کام کا نہیں رہا تو انہوں نے مجھے مالک کے ہاتھوں بیچ دیا تھا۔پہلی بار جب انسانوں کی بستی میں آیا تھا تو کیا ہی رنگ تھے اس وقت۔ جس گلی میں مجھے مالک لے کر جاتا میں ہر ایک کی آنکھ کا تارا بن جاتا تھا۔ کوئ ایسا محلہ نہ تھا جہاں سے کھانا نہ ملتا تھا۔ جہاں کہیں جاتا میرے گرد لوگوں کا اور خصوصا بچوں کا ہجوم ہو جاتا تھا۔ ایک ایک کرتب دکھانے پہ داد ملتی تھی۔ کوئ قلفی کھلاتا، کوئ ٹافی لے آتا تھا، کوئ شوق سے گوشت لے آتا، بوڑھے، جوان اور عورتیں بھی مجھے دیکھنے آتے تھے۔ اکثر اوقات تو میری پیٹھ پہ بیٹھ کہ بچے سیر بھی کرتے تھے۔ بچوں کے ایسے شوق ہوا کرتے تھے اور ہم کبھی بھوکے نہیں سوتے تھے اور اب تو ہفتوں فاقے میں گزارنے پڑتے۔

بندر: بھالو یار میرا بھی ایسا ہی زمانہ گزرا ہے۔ میں روزی کا ذریعہ ہوتا تھا کبھی مالک کے لیے۔ اب تو اس پہ بوجھ سا بن گیا ہوں۔ وہ جو بھی کھاتا ہے سب سے پہلی مجھے کھلاتا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ لوگ اب کیوں ہماری اہمیت اور عزت نہیں کرتے۔ یہ۔کیسے سب بدل گیا پتہ ہی نہیں چلا۔

ریچھ: اب تو بچپن نظر ہی نہیں آتا کہیں۔ معلوم نہیں اس زمانے والے بچے اب کیوں نظر نکیں اتے۔ انسانوں کے اس رویے کی وجہ سے میرا مالک مداری سے بھکاری بن گیا ہے۔ اب لوگوں کے گھر جا کر مانگنا پڑتا ہے۔والدین نے بچوں کو عجیب سے کھلونے لے دیے ہیں وہ اب سارا دن انہیں سے کھیلتے ہیں۔

بندر: ایک کھلونا جس کا مالک بتا رہا تھا اپنے بچوں کو بھی ۔۔اسے شاید موبائل فون کہتے ہیں میرے خیال اور میں نے وہ ہر بندے کے پاس دیکھا بھی ہے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے پاس بھی۔

ریچھ: ہاں وہی تو اصل بدبخت چیز ہے جس کی وجہ سے بچے ہم سے دور ہو گئے ہیں۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ اس کھلونے پہ ہمارے میلے اور دنیا کی ہر بلا دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ پھر کہاں ہمیں اب یہ دیکھیں گے۔ کیوں لوگ آپس میں ملیں گے۔ میں نے تو اکثر دیکھا ہے لوگ ایک ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں مگر سب اسی میں لگے ہوتے ہیں جیسے وہی ان کی دنیا ہو۔ آج کل تو یہ عالم ہے بچے مجھے دیکھ کر ہی ڈر جاتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں اور اکثر پتھر بھی مارت پیں۔ یار ہم نے کبھی ان کو تنگ نہیں کیا تو یہ ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں۔ (ریچھ رونے لگتا ہے)
بندر: بھالو یار رونے سے مقدر نہیں بدلا کرتے۔ کیا خبر تیرے رونے سے اوپر والا تیری فریاد تو سن لے اور تو آزاد بھی ہو جائے مگر تیرا مالک اکیلا رہ جائے گا۔ کیا تجھے منظور ہے اس سے اب یوں بچھڑنا اور اس کا آخری سہارا بھی چھن جائے۔ کیا تجھے منظور ہے کہ جو اب تھوڑی بہت حق حلال کی کمائ ہے وہ بھی جاتی رہے۔

ریچھ: میں ایسا بھی نہیں چاہتا یار مگر انسان ہمیں کیوں حیثیت کیوں نہیں دیتے۔ ہمیں چڑیا گھروں کی زینت بنا کر قید کر لیتے ہیں۔ ہم ان کی روزی کا ذریعہ بنتے ہیں اور پھر وہ جو حشر کردیتے ہیں اس بیچارے کاوان ہاتھی کی طرح ، اب یہ کہاں کا انصاف ہوا۔

بندر: کاوان ہاتھی؟ اسے کیا ہوا ہے۔ وہ تو چڑیا گھر کی رونق ہوا کرتا تھا۔ اسے کیا ہوا۔؟

ریچھ: تجھے نہیں معلوم اس کے ساتھ کیا حشر ہوا؟ پوری دنیا میں اس کا چرچہ ہوا اس بیچارے پہ جو بیتی۔ میں تو ایک روز گزر رہا تھا تو ایک ٹی وی پہ اس کی خبر چل رہی تھی کہ اس کی کی حفاظت نہیں کی گئ جس کی وجہ سے اس کی حالت مرنے والی ہو گئ۔

بندر: اب حال دیکھو ان انسانوں کے۔ بھلا چڑیا گھر میں قید کر کے بھی اگر یہ ہاتھی کا حال ہے تو باقی کا کیا حال ہوگا۔ یہ خبر سن کے تو خود کو خوس نصیب محسوس کر رہا ہوں۔

ریچھ: یار بس اب جتنی زندگی رہ گئ ہے تو سوچ رکھا ہے کہ مالک سے وفا نبھاوں گا۔ اگر قسمت میں یہی پے تو پھر کیا کوسنا۔

بندر: اب تو انسانوں میں رہ کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم۔حیوانوں کو ان انسانوں کا مان اور بھرم رکھنا پڑتا ہے۔ میری تو آزادی کی تمنا ہی ختم ہو چلی۔ اب تو اپنے اس مالک کی غربت مٹا تو نہیں سکتے، ہاں بانٹ ضرور رپے ہیں۔ جس کے لیے ہم۔اس کی اولاد سے زیادہ عزیز ہوں اس کا گلہ کیا کرنا۔ وہ۔تو ہمارے لیے یہاں خدا کا وصیلہ بن چکا۔

ریچھ: بندر یار آج تجھ سے مل کے دل ہلکا ہو گیا۔ دل کا سارا غبار اتر گیا ہے۔ سارے غم دھل گئے ہیں۔ ایسی ہی کوئ اپنا ملتا رہے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔

بندر: بھالو ہماری زندگی میں تماشہ لکھا ہے۔ ہم مداری کی ڈگڈی پہ ناچنے والے ضرور ہیں مگر ہمیں اس پہ کوئ شرم نہیں ہونی چائیے۔ بس جب موت ائے تو خدا کے حضور پیش ہونے کی وجہ مل جائے گی۔ ابھی زندگی تو مشکل ہے مگر ہم دونوں کا باقی کا سفر بہت آسان ہوگا۔ بس یہ بات پلے باندھ کے رکھنا ہمیشہ تو۔

ریچھ: بندر تو نے تو دل جیت لیا یار یہ بات کر کے۔ راستہ واقعی دشوار ہے مگر منزل آسان ہے۔ ہمیں ہمارا وسیلہ ضرور ملے گا۔

بندر: اب مالک آ رہا ہے۔ لگتا ہے ہمارے رخصت ہونے کا وقت آگیا۔

ریچھ: یار اپنا خیال رکھنا۔ اگر زندہ رہنے کو کچھ پل میسر آئے توملتے رہیں گے۔

بندر: ہاں پھر ملاقات ہوگی۔

مداری اپنے بندر کو پھر سے کاندھے پہ بٹھاتا ہے اور چوکھٹ سے نکلتا ہے اور ریچھ کا مالک اسے چاول کھلانے لگتا ہے۔ ریچھ کی آنکھیں بندر کے اوجھل ہونے تک اسے تکتی ہیں۔ (پردہ گرتا ہے)

You may also like...