Hum Kab Badlain Ge: Urdu Article by Syed Muhammad Zohaib Shah

Hum Kab Badlain Ge: Urdu Article by Syed Muhammad Zohaib Shah

 

“ہم کب بدلیں گے؟”

ہم بَچپن سے یہی بات سُنتے چَلے آۓ ہیں کہ وقت بَدلے گا تو سب ٹھیک ہو جاۓ گا، لوگوں کو یہ دُعایئں مانگتے دیکھا ہے کہ کاش ہمارا بھی وقت بدل جاۓ۔ بڑے بڑے انسان آۓ (یہاں لفظ ”انسان“ کی جگہ آپ اپنی سوچ و فِکر کے اعتبار سے کوئ دوسرا لفظ یا الفاظ بھی استعمال کر سکتے ہیں، مثلاً حُکمران، بادشاہ، سیاستدان، تاجر، مولوی اور انسانیت کے خیر خواہ وغیرہ) مگر خیر۔ بات یہ ہے کے جتنے بھی انسان آۓ سب کا بُنیادی مقصد ایک ہی تھا اور وہ تھا ‘نظام’ کی تبدیلی۔ بڑے بڑے دعوے ہوۓ، بڑے بڑے وعدے ہوۓ(جھوٹے یا سچّے کی تو بات ہی نہیں) سب وہیں کے وہیں رہ گۓ اور نظام تو کیا ہی بدلتا لوگوں کے نام بدل گۓ اور نام کے ساتھ مَرحوم لکھ دیا گیا۔ افسوس کے ساتھ ہم نے کبھی اپنی ذات کا جائزہ نہیں لیا کہ بحیثیت انسان ہم خود کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی کبھی یہ بات نہ آئ کہ ہماری بھی کوئ اخلاقی اور معاشرتی زمہ داری ہے، ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد صرف ماتھے پرمحراب اور جاتے وقت دو گز زمین ملنا ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے میرا یہی سوال ہے کہ ‘ہم کب بدلیں گے’؟ بطور مسلمان کے تو ہم سے بڑا کوئ جنت کا حقدار ہی نہیں مگر وہاں تک پہنچنے کے لۓ انسانیت کا ہونا کیا ضروری نہیں؟ ایک نہایت مُعزز صاحب فرماتے ہیں کہ ” آپ ایک اچھے مسلمان بن ہی نہیں سکتے جب تک آپ ایک اچھے انسان نہ ہوں“۔ اب میرے چھوٹے سے دماغ میں یہ سوال آتا ہے کہ ہم تو اچھے انسان ہیں ہی نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

dowry-photo-by-Syed Fahim Haider-unsplash

 

 

ہم کب بدلیں گے؟ سوال اب بھی یہی ہے مگر جواب کوئ نہیں۔ ہم اسلام اور اخلاقیات کا لبادہ اوڑھ کر کس قدر حیوانیت سے بھی نچلے درجے پر اتر آۓ ہیں کہ ہمیں دنیاوی عیش و عشرت اور مال کی حَوَس نے اندھا کر دیا ہے۔ ہم ایک روپے کے چورن سے لے کر ایک ارب کی گھڑی تک مطمعن بے ایمان ہیں۔ ہم دودھ میں پانی ملائیں گے، ہم حرام کو حلال بنائیں گے، ہم نومولود سے مردہ تک سب کو اپنی حوس کی بھینٹ چڑھائیں گے، ہم صحت مند کو معزور کروائیں گے، ہم معزور کو بیچ کھائیں گے، ہم امیر کےتلوے چاٹیں گے، ہم غریب کو بیوقوف بنائیں گے، ہم بیواؤں کا فائدہ اٹھائیں گے، ہم یتیم کا حق کھائیں گے، ہم زندہ بیٹیاں جلائیں گے، ہم انکار پہ تیزاب بھی ڈلوائیں گے، ہم عزت بیچ کر گھر چلائیں گے، ہم۔۔۔۔۔ ہم دو ٹکے پہ بِک جائیں گے۔ اور پھر ہم اپنے حکمرانوں کو کوسیں گے، مگر میرا پھر وہی سوال ہے ہم کب بدلیں گے؟ یہ حکمران کون ہیں، ان کو لانے والے کون ہیں؟ جب ہم خود کو ہی نہیں بدلیں گے تو حکمران بھی ہم میں سے آئیں گے اور نظام تو پھر کیا ہی بدلے گا ہم مزید رسواء ہوتے چلے جائیں گے۔ اگر ہر شخص صرف اپنے آپ کو بدلنے کی زمہ داری لے تو ہم بھی ایک کامیاب معاشرہ بن سکتے ہیں مگر میرا ایک ہی سوال ہے کہ آخر ” ہم کب بدلیں گے؟“۔

 

تصنیف کردہ

سید محمد ذوہیب شاہ

 

 

 

You may also like...