2023 Pakistani Education Policy: Urdu Article by Irum Masood Malik

2023 Pakistani Education Policy: Urdu Article by Irum Masood Malik

 

شرح خواندگی کم کرنے کے لیے حکومت کا زبردست قدم

 

گزشتہ روز لیے کہ حکومت کے ایک عام فاصلے نے کئی گھروں میں خوشی کی لہر دوڑا دی۔ اس خوشی کا تعلق ان ماؤں دادیوں سے جو بچیوں کو تعلیم چھڑوا کر گھر کے کام کاج میں لگانا چاہتی تھی۔ حقیقی خوشی تو ان والدین کے لیے تھی جو کہ تعلیم کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے لڑکوں کو مزدوری پہ لگانا چاہتے تھے۔ مختصر یہ کہ اس فیصلے نے خصوصا دیہات میں رہنے والے لوگوں کے کئی مسئلے حل کر دیے ۔ اب انہیں نہ بچوں کے سکول جانے کے خرچے، کتابوں کے خرچے اور اور نہ ہی کھیتوں پہ کام کاج کی فکر ہوگی ۔ کیونکہ قلم اٹھانے والے ننھے ہاتھ اب درانتی اٹھایا کریں گے۔ یہ حال احوال ہے یونین کونسل سوہنگ میں رہنے والے ان لوگوں کا جن کے دل میں اولاد کو تعلیم دلوانے کی خواہش تو تھی مگر جیب اجازت نہ دیتی تھی ۔ ایسے لوگوں کے لیے سرکاری سکول کسی نعمت سے کم نہ تھے کیونکہ وہاں پہ فیس برائے نام لی جاتی تھی

 

 

poor kid in pakistan

poor kid in pakistan

 

 

یہ وہ لوگ ہیں جو کہ بچے کا گھر سے سکول جانے کا خرچہ بھی بہت مشکل سے برداشت کرتے تھے ۔ بچوں کو تعلیم دلانے کی یہ ننھی سی خواہش حکومت کے دل پر گراں گزری اور حکومت نے ان سکولوں کو پرائیویٹائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ظلم کا حقیقی نشانہ گاؤں اور قصبوں کے وہ لوگ بنے جو بچے کے سکول جانے کے 20 روپے خرچے یا کاپی کے 20 روپے کا بندوبست مشکل سے کیا کرتے تھے اب انہیں ماہانہ دو ہزار روپے کا بندوبست کرنا ہوگا ۔ یہ دو ہزار روپے محض 2000 فیس نہیں بلکہ ذہنوں میں اٹھنے والے کئی دو ہزار سوالات ہیں۔

 

Government College University

Government College University

 

کیا متاثر ہونے والی ہردو چیڑھ کے 2 ہزار بچوں کی حکومت کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں؟

کیا یہی دو ہزار ڈوبتی ہوئی معیشت کو بچا سکتا ہے؟

سالانہ مختص ہونے والے تعلیمی بجٹ میں غریب کے بچے کے لیے 2 ہزار ماہانہ بھی نہیں؟

تعلیم کی کمی کی وجہ سے مستقبل میں انے والے دو ہزار مسائل کا حل کس کے پاس ہے؟

 

ان سب اور اس جیسے سینکڑوں اور سوالوں کا جواب شاید کسی ادارے کے پاس موجود نہیں وجہ صرف یہ ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں ایا کبھی تعلیم کو اہمیت دی ہی نہیں گئی نہ ہی حکم الہی سمجھ کر اور نہ ہی دور حاضر کی ضرورت سمجھ کر ۔ خصوصا گاؤں قصبوں کے لوگ گزرے ہوئے کل بھی تعلیم سے محروم تھے انے والے کل میں بھی محروم رہیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام پسماندہ تھی اور انے والے کل میں بھی پسماندہ رہے گی ۔ پڑوسی ملک چاند پر قدم رکھ رہا ہے اور ہمارا ملک جس نے صرف دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے اس کے بچے مستقبل میں سکول میں قدم رکھنے کے بھی اہل نہ رہیں گے 

 

 

education

 

ایک دیہاڑی دار مزدور جس کے ماہانہ امدن دس سے پندراں ہزار ہو اور بچوں کی تعداد تین ہو ذرا سوچیے وہ ماہانہ 6 ہزار سکول میں دینے کے بعد ان بچوں کے سر پر چھت اور پیٹ بھرنے کا بندوبست کیسے کرے گا ۔ نتیجہ یہ ہوگا سر پہ چھت ہوگا پیٹ بھرا ہوگا لیکن انے والی نسل عقل و شعور اور تعلیم سے محروم رہ جائے گی ۔ ہر دور میں غریب کی جیب اور ایمان کو ازمایا گیا ہے کبھی اٹا مہنگا کر کے کبھی بجلی کے بل کی صورت میں عذاب برپا کر کے ان دونوں ازمائشوں میں سے تو غریب جیسے تیسے گزر گیا لیکن اس ازمائش میں ہار جائے گا۔ ملک و قوم کے سینکڑوں بچے اب سکول کے اوقات میں گلی میں گیند بلا اور چھپن چھپائی کھیلا کریں گے ۔ گلی محلے کی تربیت کے بعد یہ بچے عارفہ کریم اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہیں بنیں گے بلکہ چور ڈکیت بنیں گے ۔

 

عوام الناس خصوصا ہردو چیڑھ کے پسماندہ لوگوں کی حکومت سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی زبردستی لاگو ہونے والی یہ ماہانہ دو ہزار فیس کا فیصلہ واپس لیا جائے ۔ کیونکہ یہ فیصلہ انے والے مستقبل میں نجی سماجی معاشی اور معاشرتی زندگی میں بہت برے اثرات مرتب کرے گا ۔ مہنگے اٹے مہنگی بجلی کے بعد اب مہنگی تعلیم باخدا بہت بڑا ظلم ہے ہماری جیبیں یہ ساعت نہیں رکھتی کہ ہم یہ بوجھ اٹھا سکیں ۔ حاکم وقت یہ ہرگز مت بھولے کہ فرعون ہر دور میں اتا ہے اور ہر دور میں اسے انے والی نسلوں کے لیے نشانے عبرت بنا دیا جاتا ہے ۔ غریب کی اہ اسمانوں کو چھوتی ہے تو ابر رحمت برستا ہے ۔ ہماری گزارش ہے کہ حکومت ایسے مظالم سے استغفار کرتے ہوئے اللہ کی رحمت کے مستحق ٹھہرے ۔ ہم اپنے نجی مسائل کے علاوہ حکومتی مسائل کے حل ہونے کے بھی دعا گو ہیں ۔

 

 

 

You may also like...