Beti Hoon Main: Urdu Article by Sumra Akhlaq
بیٹی ہوں میں۔۔ اور یہی میری طاقت ہے
دنیا جہاں جدید تحقیقات پر مصروف عمل ہے۔ خلا کا سفر طے کرنے کے منصوبے بجلی سے چلتی گاڑی اور نہ جانے کیا کیا۔۔اور دوسری جانب ہم امتِ مسلمہ۔۔جسکو قدم بقدم ساتھ آگے بڑھنا چاہیے وہ ابھی بھی صدیوں پرانی سوچ میں جی رہی ہے۔ میرا اس بات کا ذکر کرنا اُس فکر پر روشنی ڈالنا ہے جو جو ابھی تک ہماری تنگ نظری اور کند ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ آخر ہم اپنی سوچ کے دائرے کو وسیع کیوں نہیں کرتے؟ بیٹی ہوں میں۔۔ اور یہ کوئی انوکھی یا بری فال تو نہیں۔ میں رحمت وخوشی کی نوید تھی ہمیشہ سے لیکن زحمت مجھے آپکی تنگ مزاجی نے بنا دیا۔۔ کبھی مجھے لیبرلز نے اپنی شہرت کے لیے استعمال کیا تو کبھی میں بے علم انسانوں کی غیرت کی بھینٹ چڑھ گئی۔۔ یہ کیسی بد اخلاقی ہے؟
مجھے بے حد نفرت ہے اُس سوچ سے جو عورت کو مرد کے برابر یا جو اسکو مرد سے کمتر سمجھے۔۔ ارے اس دنیا میں بہت کچھ اور بھی ہے سوچنے اور سمجھنے کے لیے۔۔لیکن ہماری سوچ کا محور بس یہی رہ گیا ہے۔۔افسوس۔
ہم مسلمان ہیں نا۔۔ ہم مسجد جاتے ہیں خدا کے آگے سجدہ ریزی کی خاطر۔۔ ہم روزی رکھتے ہیں اسکی خوشنودی کی خاطر۔۔ تلاوت قرآن پاک کرتے ہیں ثواب کی خاطر۔۔لیکن ہم ان الفاظ کے اندر مخفی نور کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔۔ تبھی تو یہ حال ہے کہ ہم دل کی گہرائیوں سے اس پر غور نہیں کر پا رہے نہ ہی ان باتوں کے مفہوم کو سمجھ پا رہے ہیں۔
ہم دن رات جس پاک ذات پر درود و سلام بھیجتے ہیں جس کی خاطر جان نثاری کا ایمان رکھتے ہیں۔۔ کبھی انکے اسوہ حسنہ پر غور طلبی کا خیال کیا؟ انہوں نے تو بس محبت بانٹی سبکو برابر سمجھا اور جانا۔ اسکے ساتھ ساتھ اپنے عمل سے تمام انسانیت کا دل بھی جیتا۔۔ اور ہم انکے امتی ہونے پر یہ تک نہ کر سکے کہ کم ازکم انکی ہدایات پر عمل پیرا ہو جائیں؟
برائی وہیں کی وہیں ہے۔۔ جہالت و بے اعتباری بھی قائم ہے۔۔ جان کی بھی قیمت نہیں اور عورت کی ہے ابروئی بھی۔ کہیں وہ مظبوط ہے تو کہیں تنگ ذہنی کا شکار۔۔ کب یہ سب ختم ہوگا؟ کب ہمیں اپنی قیمت کا احساس ہوگا؟ کب ہم آزاد ملک میں اپنے اردگرد لگائے ہوئے بد تہذیبی کے دائروں سے آزاد ہوں گے؟ ہم آخر اس موضوع پر بات ہی کیوں کریں؟ ہم کب خود میں موجود صلاحیتوں کو پہچانیں گے اور جہالتِ مفرط سے چھٹکارا حاصل کریں گے؟ میں نہایت دکھ کے ساتھ دل میں درد لئے لکھ رہی ہوں اور دماغ اجیب بھنور ِجال میں پھنسا ہوا ہے اور شرم سے یہ سب حقیقت ہے کہ ہمرے ملک میں ہوتے مظالم کا شکار عورتیں، انکی عزتِنفس مجروع ہوتے ہوئے ہماری چپ۔۔ ہماری پست ہمتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مرد اللہ کا تخلیق کردہ ایک جنس ہے۔۔۔ ہمیں اسکو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جسکو اللہ نے عورت سے ایک درجہ بلند رکھا اس لئے کہ وہ حفاظت کرے خیال رکھے نہ کہ اس پر حاکم ہو جائے۔ عورت بظاہر ناذک ہوتی ہے مگر وہ خودمختار ہو جائے تو خود کو سب سے بالاتر سمجھتی ہے۔ دونوں میں کوتاہی کا عنصر موجود ہے پر اس کو درست کرنے کی بجائے غلط سمت دے دی جائے تو معاشرے بدتہذیبی کا گہوارہ بن جاتے ہیں۔ جو کہ ہمیں اجکل کے حالات سے واضح ہوتا ہے۔ لیکن کیا اس سب کو چلتے رہنا چاہیے یا اسکو لگام دینے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اسکا فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم ان سب بدعنوانیوں کو وقت پر نہیں روکا تو یہ زہر ہماری آیندہ نسلوں میں بھی پھیل جائے گا جسکا نتیجہ صرف ہلاکت ہوگا۔ ہمارا اتنا پڑھنا لکھنا کس کام کا اگر ہم اپنی سوچ کو ہی کو بدل نہ سکیں؟ چار کتابیں پڑھ لیں اور عالم بن گئے۔۔۔ لیکن جو علم 1400 سال پہلے پڑھایا گیا تھا اسکو فراموش کر دیا۔۔
بس ! اب ہمیں بولنا ہوگا، اپنے لئے جینا ہوگا ۔۔ اپنی حدود اور منزل کا تعین کرنا ہوگا اور ان راستوں پر چلنا ہوگا جس پر چلنا ہمیں زیب دیتا ہے۔ اِس چپ کے کلچر کو ختم کرنا ہوگا اور ہمت دکھانی ہوگی چاہے وہ مرد ہو یا عورت اپنے لئے اپنے حق کے لئے آواز اپکو خود بلند کرنی ہوگی تاکہ آپکی ہمت اور حوصلے کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اگر ہم نے آج یہ ارادہ نہ کیا تو اس جہالت نے چلتے جانا ہے اور اسکا انجام صرف تباہی ہوگی۔ عزت کرنا سیکھنا ہے اور اگر نہ ملے اور راستہ بدل لینا ہے اور اگر کوئی سر پر حاوی ہو جائے تو اسکا سر توڑ دینا ہے۔ اور یہ سب ہمیں کو کرنا ہے ۔