Saadat Hassan aur Manto: Urdu Article by Hamza Safdar

   سعادت حسن اور منٹو

منٹو ایک حقیقت ہے منٹو ایک سچ ہے منٹو کوئی انسان نہیں منٹو ایک کوھٹا ہے ۔ایک ہیرا مندی کا کوھٹا ۔ ایک ایسا کوھٹا جہاں پر رنڈی  ملتی ہے ۔ منٹو ایک کوھٹا ہے اور رنڈی اس کی تحریرں ہے ، جو تحریرں معاشرے کی ضرورت بھی اور ننگے معاشرے کو  آئینہ بھی دکھاتی ہیں وہی ننگا معاشرہ جس کو ان تحریروں کی ضرورت ہے وہ ان تحریروں کو پڑھتا بھی ہے اور ان کو برا بھی کہتا ہے بلکل اسی طرح جیسے رنڈی کے پاس بھی جاتا ہے اور اس کو برا بھی کہتا ہے ضرورت پڑھنے پر انہی تحریروں کا سہارا لیتا ہے جن کو فحاش بولتا ہے اس کوھٹے کو بنانے والا سعادت حسن تو مر گیا مگر اس کی رنڈیا مطلب اس کی تحریرں رہتی دنیا تک باقی رہے گی ۔ مگر اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ منٹو مر گیا تو وہ جھوٹ بولتا ہے سعادت حسن مرا ہے منٹو ابھی بھی رندہ ہے

Manto and Mystery Woman

Manto and Mystery Woman

 ‘سعادت حسن منٹو نے خود بھی لکھا تھا

 ‘ ہو سکتا ہے سعادت حسن مر جاۓ اور منٹو نہ مرے ‘

 اب یہ معاشرہ جس نے سعادت حسن کو جینے نہ دیا اب وہ منٹو کو مرنے نہیں دیتا جب سعادت حسن بھی زندہ تھا تو اس پر اور منٹو پر مقدمہ کیے گۓ اصل میں وہ مقدمہ تو سعادت حسن پر کیے گۓ تھے مگر منٹو ہم زات ہونے کی وجہ سے اس مقدموں کی زد میں آ گیا جب سعادت حسن زندہ تھا تو نہ ہی اس کو انڈیا میں جینے دیا گیا اور نہ ہی پاکستان میں جینے دیا مگر جب سعادت حسن مر گیا تو اس کو بعدازمرگ آواڈ سے نوازا جانے لگا اس کے نام کی تختیان لگا کر اپنے قد اونچے کیے جانے لگے وہی دو ملک انڈیا اور پاکستان جینوں نے سعادت حسن کو جینے نہ دیا اب ایسی سعادت حسن منٹو پر فلمیں بنا کر شعورت حاصل کر رہے ہیں مجھے پورا یقین ہے اگر ابھی بھی کسی شخص کے اندر منٹو آ جاۓ تو اس شخص کو معاشرہ قتل کر دے گا جیسے سعادت حسن کو معاشرے نے قتل کر دیا تھا

جی ہاں صحیح سنا سعادت حسن مر نہیں تھا اس کو اس ننگے معاشرے نے قتل کیا تھا اور اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے ہر چیز پر لکھا تھا ہر شخص پر لکھا تھا مولوی پر لکھا تھا شریف آدمی پر لکھا تھا بدمعاش پر لکھا تھا رنڈی پر لکھا تھا اگر رنڈی اتنی بری ہے تو اس کو پیدا بھی تو ہماری ہی معاشرہ کرتا ہے کوئی عورت خوشی سے اپنا جسم نہیں بچتی؛ کوئی اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے کوئی ایک چھت کے لئے رنڈی بنتی ہے جیسے کے منٹو نے بہت درست کہا ہے

‘میرے معاشرے کے شریفوں کو میرے معاشرہ کی رنڈی سے بہتر کوئی نہیں جانتا ‘

معاشرے اور حکمرانوں نے جب بھی کوشش  کی ہے رنڈی کے کوٹھے کو ختم کرنے کی کی ہے مگر رنڈی کو خریدنے والے شریف آدمی کو ختم کرنے کی نہیں کی اسی طرح جب بھی منٹو کی تحریروں کو روکنے کی کوشش کی گئی  مگر اس معاشرے کو صحیح کرنے کی نہیں کی گئی افسوس  اس بات کا بھی ہے کہ اس منٹو کو کومنیسٹ کہا جاتا تھا جو اپنی ہر تحریر کا آغاز بسم اللہ یعنی کے 786 سے کرتا تھا 786 سے آغاز کرنے والا شخص کبھی کومنیسٹ نہیں ہو سکتا اور اس کی جن تحریروں پر مقدمہ ہوئے تھے کیا وہ سچ نہیں تھی ؟

manto quote

Manto on his critics

کیا ایسے لوگ  ہمارے معاشرے میں موجود نہیں ہے جو اس کی تحریروں کے کردار  تھے افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ اس پر یہ مقدمہ  کیا گیا تھا کہ اس نے اپنے افسانے ٹھنڈا گوشت میں گالیاں استعمال کی ہیں جنسی  رشتے کے بارے میں لکھا ہے مگر معاشرے کو یہ نظر نہ آیا یا معاشرے نے یہ دیکھنا نہ چاہا کہ اس کے افسانہ کا کردار  سورسنگ جیسا بھی تھا قاتل تھا زنی تھا برا انسان تھا مگر اس کے اندر کی انسانیت ابھی بھی زندہ تھی جب اس نے کسی ٹھنڈے گوشت پر اپنی جنسی خواہش پوری کی مگر جب اس کو اس بات کا پتا چلا کہ وہ ٹھنڈا گوشت ایک مردہ گوشت ہے تو اس نے اپنے آپ کو ایک ٹھنڈے گوشت میں تبدیل کر لیا.

 اصل میں معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو ہر وہ چیز نظر آتی ہے جس کو وہ برے طریقے سے پھیلا سکے نہ کہ وہ چیز جو اس کے پیچھے کی اچھائی ہے

 اگر یہی منٹو مغرب میں پیدا ہوا ہوتا اور اس نے یہی سب مغرب میں لکھا ہوتا تو یقینن اس کو مغربی ادب میں ایک اعلی مقام  دیا جاتا

منٹو کا جب دل جلتا تھا

 تو اس کا قلم چلتا تھا

 جب قلم چلتا تھا

 تو معاشرہ آنکھیں ملتا تھا

تحریروں سے حیوانیت کا پہلو جھلکتا تھا

 پڑھ کر انسانیت کی آنکھوں کا دریا ابلتا تھا

اندر کا کولیا سلگتا تھا

 جذبات کا ماتم ہوتا تھا

معاشرہ کا جنارہ نکلتا تھا

حقیقت کا چپ رہنا بولتا تھا

حمزہ صفدر

You may also like...