Qalam Kitaab: Book review by Neelam Ali Raja

عنوان: قلم کتاب؛ ایک نئی شروعات

ازقلم: نیلم علی راجہ 

 

کبھی آنکھیں کتاب میں گم ہیں
کبھی گم ہیں کتاب آنکھوں میں

 

محمد علوی صاحب کے اس شعر کو بارہا پڑھا مگر آج سے زیادہ بہتر نہیں لگا۔ قلم کتاب کے ساتھ اس شعر کو منسوب کرنا غلط نہ ہو گا۔  ایک ایسی کتاب جس کو دنیائے ادب میں شاہکار کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس کتاب کی شروعات سے ہی اس کی بہت تشہیر کی گئی۔ جس کے باعث ادب اطفال کے تقریبا 400 نئے اور پرانے لکھاریوں کی شمولیت ہوئی۔ اس مجموعے کو اگر مجموعہ خاص کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہو گا کیوں کہ اپنے نام اور کام میں یہ ایک منفرد کتاب ہے۔

 

اس طرح کی کتاب مرتب کرنے کا خیال محمد عثمان ذوالفقار نے ظاہر کیا۔ اس خیال کو لے کر عملی جامہ پہنانے اور پھر پایہ تکمیل تک لے جانے کا سہرا نوشاد عادل کے سر ہے۔

 

Qalam Kitaab

 

 

 اس کتاب کا نام عارف مجید عارف صاحب نے “قلم کتاب” تجویز کیا۔ یہ نام رکھنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر سب سے ٹھوس وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں شامل ادیبوں کی تحاریر ٹائپنگ کے بجائے ان کے اپنے قلم سے لکھی گئی ہیں۔

 

قلم کتاب کے سرورق سمیت ہر چیز مشین یعنی کمپیوٹر کی بجائے ہاتھ سے لکھی گئی ہے جو کہ خون پسینہ ایک کرنے کی بات ہے۔ اس کتاب کے ہر ایک صفحے پر ایک نئی تخلیق اور لکھنے کا ایک نیا انداز نظر آئے گا۔۔

 

اس قدر محنت طلب کام محبت کے بغیر ناممکن ہے۔ ادب سے محبت رکھنے والے دو لوگ نوشاد عادل اور محبوب الہی مخمور نے اس کتاب پر دن رات ایک کر دئیے اور صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ بار بار سب لکھاریوں کو یاد دہانی کرواتے رہے کہ کوئی شمولیت سے رہ نہ جائے۔ سب کے سوالوں کے جوابات بھی دیتے رہے۔ یہ دونوں اس لحاظ سے داد کے مستحق ہیں اور بالاخر اس کام کو منطقی انجام تک پہنچایا یے۔

 

اس کتاب کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کتاب میں لکھائی کو محفوظ کر لیا گیا ہے ورنہ اب تو ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی کا دور ہے جس میں لوگوں نے ہاتھ سے لکھنا بہت کم کر دیا یے۔ لوگ کمپیوٹر، موبائل اور لیپ ٹاپ پر ٹائپ کرنا پسند کرتے ہیں۔ لکھنا تو ناپید ہوتاجارہا ہے۔

 

اپنے پسندیدہ شخصیات کی لکھائی کے ساتھ ساتھ نہ صرف ان کے دستخط بلکہ ان کا برقی پتہ بھی میسر آ جائے تو قارئین کی تو عید ہو جائے گی۔ ہر انسان اپنے پسندیدہ شخصیت سے رابطہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کتاب سے ایک ٹکٹ میں دو مزے چھوڑ بہت سے فائدے ہوں گے۔ ایک تو آٹوگراف مل جائے گا، دوسرے برقی پتہ اور بعض ادیب اپنا رابطہ نمبر بھی دئیے ہوئے ہوں گے، پھر ان سب کی لکھی گئی منفرد سیکنڑوں کی تعداد میں تحاریر۔ اور سب سے بڑھ کر ہر ادیب کی ہینڈ رائٹنگ دیکھنے کا موقع ملے گا اور ایک جیسے انسانوں کا مختلف انداز تحریر نظر آئے گا۔

 

ایک ادیب اپنی نظر کی قربانی دیتا ہے، اپنا قیمتی وقت صرف کرتا ہے اپنے زہن و دل کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے تب جا کر ایک خوبصورت تحریر وخود میں آتی ہے۔

 

ادیبوں کا دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح صرف لکھنے سے کام نہیں چلتا بلکہ انھیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے کوئی اور ذریعہ معاش بھی اپنانا پڑتا ہے۔ ادب مشغلے کے طور پر ہی رہ جاتا ہے مگر ادیبوں کی عمر بھر کی جمع پونجی بس یہی کتابیں ہوتی ہیں۔ جن کو لکھنے میں ان کی عمر گزر جاتی ہے۔

 

اس کتاب میں شامل سبھی ادیبوں کو جنہوں نے ادب سے محبت میں خود کو دان کر دیا میرا سلام اور ان کی نذر اعجاز توکل کا یہ شعر

 

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مرے ہیں۔

 

میری تجویز ہے کہ قلم کتاب کو نہ صرف ہر لائبریری میں موجود ہونا چاہیے بلکہ ملکی و عالمی سطح پر بھی اس مجموعے کو متعارف کروایا جانا چاہیے۔

 

 

You may also like...