Beti: Urdu Story by Faiza Warraich

بیٹی: تحریر فائزہ جہانگیر وڑائچ

افسوس ، ساتویں بیٹی نے جنم لیا ہے۔  اللہ پاک نائلہ  پر رحم فرمائے۔  یہ آواز سن کر نائلہ کو لگا کہ اس کے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا ہیں۔ اس کے گھر تو پہلی بیٹی ہوئی ہیں اور باہر مبارک دینے والی مبارک کم افسوس ذیادہ کر رہی تھی ، بس کیا کیا جاسکتا ہے بہن ، اس نے اپنی ساس کی آواز سنی تھی۔  عادل  میرا سب سے چھوٹا ، پیارا بیٹا ہے۔ مجھے امید تھی کے اس کے گھر پہلا بیٹا ہی ھوگا۔  نائلہ نے بھی اپنی ماں کی طرح بیٹیاں ہی پیدا کرنی ہے۔ میں تو نہ امید ہوگئی ہو۔    کسی نے  نہیں سوچا کہ  نائلہ سب سن رہی ہوگی  اس کے دل پر پر کیا گزرے گی ۔   نائلہ نے جب سنا تو اس نے بچے کو جنم دیتے ہوئے ہونے والے اپنے تمام دکھوں کو فراموش کردیا تھا۔ اسے عورتوں کی باتیں تکلیف دے رہی تھی۔   آج کی اکیسویں صدی میں ، لوگ اب بھی ایسی دقیانوسی باتوں  پر یقین رکھتے ہیں۔  اس نے اپنی بیٹی کو اپنے پاس پڑا دیکھا اور دعا کی۔  خدا نہ کرے کہ اس کی قسمت اس کی ماں جیسی ہو۔

sad love ghazal

 

نائلہ کی پانچ  بہنیں تھی۔  اس کے والدین نے بیٹے کی خواہش میں چھ بیٹیاں پیدا کیں۔  ان کے حالت اتنے اچھے تھے کہ لڑکیوں کی پرورش اچھی ہو سکے۔  اس کی دادی  ہمیشہ اس کی  ماں کو کوستی رہتی کے اس نے ایک بیٹا پیدا نہیں کیا۔  وہ  ان کے بیٹے امتیاز کا سہارا ہوتا   اور دونوں والد ، بیٹا ملکر  اپنی بہنوں کی  ایک ساتھ شادی کرتے  اوررہی سہی کسر اس کے والد پوری کردیتے  وہ اپنی بیگم زاہدہ  سے نالاں رہتے کہ انہوں نے ان کو ایک بیٹا نہں دیا ۔  نائلہ گھر میں بڑی تھی اس لئے دادی کی انکھ میں کھٹکتی تھی۔  دادی  اٹھتے بیٹھتے یہی   روتی تھی اس کی جگہ ایک بیٹا ہوتا جو ان کا بوجھ کم کرتا۔

ان دونوں کی یہی سوچ تھی جیسے ان کی ماں نے جان بوجھ کے بیٹا پیدا نہیں کیا۔ جیسے بیٹا پیدا کرنا اس کی ماں کے ھاتھ میں تھا۔ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کے یہ سب اللہ تعالی کے کام ہیں۔

اپنی بہترین کوششوں کے باوجود نائلہ اپنے والدین کا بیٹا نہیں بن سکی تھی ۔  جیسے جیسے وہ بڑی ہوئی ، اس کے والدین اس کے  رشتے کے بارے میں فکر کرنے لگے۔  دادی اماں نے اپنے دوبڑے  بیٹوں  سے  بات کی کے وہ اپنے چھوٹے بھائی کا بوجھ کم کرنے کے لئے اس کی بیٹی کا رشتہ لے  ، لیکن ان کی دونوں تائیوں  نے یہ کہتے ہوئے سختی سے انکار کر دیا کہ اگر ان کے بیٹے نے کسی لڑکی سے شادی کرلی تو باقی پانچوں کی ذمہ داری ان کے بیٹے پر آجائے گی۔  وہ اپنے بیٹے سے نائلہ کی شادی ہرگز نہیں کریں گے جہاں بہنیں کم ہیں یاں پھر ہیں ہی نہیں وہ وہی اپنے بیٹوں کی شادیاں کرے گے  وہ اتنی  سالیوں  کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔  یہ سب سن کر ان کی والدہ کی دعائیں لمبی ہو گئیں۔  یہ غم  اس کو اندر سے کھانے  لگا تھا۔  باپ پہلے سےزیادہ  بوڑھا نظر آنے لگا ۔  دادی نے بھی چک چک کرنا بند کردیا۔  خدا خدا کرکے  ، اس کا احمد سے رشتہ ہوگیا۔

 

وہ تین بھائی اور دو بہنیں تھے۔  احمد سب سے چھوٹا تھا۔  وہ دلہن بن کر احمد کے گھر آئی تھی۔  شادی کو پانچ سال گزر گئے  اس کی کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔ اب ساس بھی باتیں سنانے لگی تھی۔ اس کی جھٹانیوں کے ہاں بیٹے تھے وہ ان سے بہت پیار کرتی اور اپنی مامتا کی پیاس اس طرح بجھا لیتی۔    اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اسے ہمیشہ اپنے سسرال میں دھب کر رہنا پڑرہا تھا۔  جب اس کو اولاد کی  خوشخبری ملی  تو وہ اتنی خوش ہوئی۔ احمد کو بیٹی کی خوائش تھی  اس نے سب کو کہا کہ دعا کرے اس کے گھر بیٹی ہو۔جس پر ذبیدہ بیگم نے اس کو کافی ڈانٹا کہ مانگنی ہیے توخدا سے اچھی چیز مانگوں  پہلی بیٹی  بھی کوئی مانگتا ہیں۔ ، ۔نائلہ کو یہ سن کر کافی دھچکا لگا تھا۔اس دن کے بعد ، نائلہ نے بیٹے کے لئے خدا سے دعا کرنا شروع کردی۔  احمد کی بھابھی کہا کرتی تھیں کہ اگر بیٹا ہو تو عورت کے سسرال  میں قدم مضبوط ہوجاتے ہیں ، لیکن خدا کو اور ہی کچھ منظور تھا    اس کے گھر میں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔

 

  وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی ، اسے ڈر تھا کہ جو کچھ  اس نے برداشت کیا، اس کی بیٹی کو کبھی برداشت نہیں کرنا پڑے  ، لوگ اس کی بیٹی پر رحم کرے بیٹاں تو خدا کی رحمت ہوتی ہیں تو کیوں لوگ اس کو زخمت سمجحتے ہیں ،  یہ خیال اس کو اندر ہی کھا رہا تھا ، وہ یہ سوچ رہی تھی کہ جسمانی بیماری سے زیادہ  یہ ، سوچے انسان کو   اندر سے تباہ کردیتی ہے۔  اس نے خدا سے دعا مانگی کہ کوئی امید  دیکھائے ۔  کوئی ہو جو اس سوچ کو ختم کر سکے اور باہر بیٹھی خواتین کو یاد دلائے کہ وہ بھی کسی کی بیٹیاں ہیں  اور ان کے گھر بھی بیٹیاں ہیں۔  خدا نے اس کی دعا سن لی  تھی۔   اچانک اس نے احمد کی آواز سنی۔

 

جب احمد گھر میں داخل ہوا تو اس نے اپنی ماں اور باہر کی عورتوں  کو بات کرتے ہوئے سنا۔  وہ بہت ناراض تھا۔  اس کا خیال تھا کہ اگر آج وہ ان سوالوں کا جواب نہیں دیتا تو وہ کبھی بھی جواب نہیں دے پائے گا۔  اس نے اپنی والدہ  جان کو مخاطب کیا۔  آپ شاید یہ بھول گئے ہوں گے کہ آپ بھی ایک عورت ہیں اور آپ کے گھر والوں میں آپ کی دو بیٹیاں ہیں اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ بھی ایک بیٹی سے ہے۔  اور میں بہت خوش قسمت ہوں کہ خدا نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا ہے۔  آپ اپنی اولاد کی نسل   کے لئے بہوئیں لاتے ہیں  ۔  اگر آپ بیٹی نہیں چاہتے تو اپنے بیٹوں کی شادی کے لئے بھی کسی کی بیٹیاں  نہ لایا کریں اور آپ کی نسل بھی اگے  نہیں بڑے گی۔ بہرحال ، مجھے اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرنی ہوگی   ا آپ لوگ کیوں اتنے غمگین ہیں جیسے یہاں کی ساری عورتیں اپنی بیٹیوں کے بارے میں پریشان ہیں ، بالکل اسی طرح جس طرح میں اپنی بیٹی کے بارے میں فکرمند ہوں ، ایہ خواتین بھی اپنی بیٹییوں سے پیار کرتی ہیں ، میں بھی اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتا ہوں۔ باہر والوں نے اکر نہ ہی مجھے کچھ دے کر جانا ہیں نہ ہی اس کی پرودش کرنی ہیں تو پھر میں کیوں لوگوں کا سوچوں۔   اس طرح کی کسی نے  باتیں کرنی ہیں تو اس  سے میرا رشتہ ختم  ہے۔  نائلہ کواچانک اندھیرے میں روشنی دیکھائی دی۔

اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ احمد کے نظریات پرانے زمانے کے نہیں تھے – اسے امید ہے ، اس کی بیٹی کی قسمت اس سے کہیں بہتر ہوگی کیونکہ اس کے والد ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے  رہیں گے۔

You may also like...