نظم: یہ لوگ : Urdu Poem by Kawish Abbasi

نظم: یہ لوگ : Urdu Poem by Kawish Abbasi

سب سر نہوڑائے
ایک دوسرے کے بازو میں بازو ڈالے ، جُھولتے
ہِلتے جُلتے ، مِلتے
آنکھوں میں آنکھیں پگھلاتے
(جیسے ایسے آدھی جِنس بھی ہو جاتی ہے)
دن کو رات کئے جاتے ہیں

سَر کو ، دماغ کو، اپنے خیال کو
اونچا نکلتا ہوا،
ہاتھ اور بھی اونچا نکلتا ہوا،
کر کے ملتا ، آواز لگاتا کوئئ نہیں
نہ ،بلندی پر،
کوئی ہے تو ،
لوگ اُس کی آواز کو
اپنی آنکھ نہ گردن اونچی کر کے دیکھتےہیں
نہ ہی اُس کی سوچ کی
سچّائی پر ہاتھ اٹھاتے ہیں
نہ ہی جوشِ جنوں میں
اُس کی سوچ کے نام کا نعرہ لگاتے ہیں

اُن کو اپنا نہوڑایا ہوا سر
گندے ، مَیلے ، لالچی ، مہنگے ،
ایک لحاظ سے سَستے ،
ریستورانوں ، جنرل سٹوروں اور اپنے کمروں جیسے
آپس میں جھولتے ، ہلتے جلتے بازو ہی اچھے لگتے ہیں
دُور ، بلند ، وہ باغی دُنیا
چاند پہ یا مرّیخ پہ جائے
جائے ، جائے!

You may also like...