بانو آپا سے وابستہ میری یادیں – Bano Appa Se Wabista Meri Yaadein – By Zahir Mehmood

Bano Qudsia, 1928 - 2017

                                            Bano Qudsia, 1928 – 2017

بانو آپا سے وابستہ میری یادیں

یہ مئی ٢٠١٦ء کا پہلا ہفتہ تھا اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا ڈرامہ فیسٹیول پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری تھا جس میں ڈرامیٹکس کلب کی طرف سے تیار کردہ سالانہ ڈرامہ “رئیس” تین دن لگاتار نمائش کے لیے پیش کیا گیا- میں پہلے دو دن پاس کی سہولت میسر ہونے کے باوجود نہ جا سکا مگر تیسرے روز میرے پاس یہ سہولت نہ تھی لہذا کلاسز لینے کے بعد ہاسٹل واپس آ گیا- ابھی بستر پر لیٹا ہی تھا کہ ایک دوست کی کال آ گئی اور اس نے بغیر پاس کے بخاری آڈیٹوریم کے پچھلے دروازے سے اندر داخل کروانے کی آفر کی- نجانے مَن میں کیا سوجھی میں نے اس کی آفر قبول کر لی اور فوراً تیار ہو کر اس کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا- جب اس نے سٹیج کی پچھلی طرف سے اندر داخل کروایا تو میں پورے آڈیٹوریم کو نظر بَھر کر دیکھ سکتا تھا- کیا دیکھتا ہوں کہ سٹیج کے بالکل قریب پہلی پہلی نشستوں پر بے تحاشا ہجوم ہے، مجھے بھی آگے بڑھ کر دیکھنے کا اشتیاق ہوا کہ کونسی ایسی شخصیت براجماں ھے کہ پورا آڈیٹوریم ان پر آن پڑا ھے- بڑی مشکل سے بِھیڑ میں سے گزرتے ہوئے جب ان تک پہنچا تو مارے خوشی کے میرے منہ سے چیخ نکلتی رہ گئی- یہ بانو آپی تھیں، جو بوجہءِ علالت وائس چانسلر کی خصوصی نشست پر شال اوڑھے، پھولوں والےسفید لباس میں ملبوس بڑی متانت اور وقار کے ساتھ براجمان تھیں- ان کے ایک ایک لفظ، ایک ایک نگاہ اور لبوں کی ایک ایک جنبش میں دہائیوں کی روایات سموئی ہوئی تھیں- وہ اپنے اردگرد موجود بچوں کو خلوص اور پیار بھرے انداز میں دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں اور میں وقورِ جذبات سے لبریز ہو کر دَم سادھے کھڑا تھا- محبت، عقیدت اور احترام کی وجہ سے میری زبان گنگ ہو گئی تھی- یہ سب محض اتفاق تھا، مجھے ان کی آمد کا قطعاً علم نہ تھا، اگر ہوتا تو ان کی آمد پر، ان کے رستے میں بِچھ بِچھ کر ان کا استقبال کرتا- ان کے خوبصورت ہاتھوں اور چہرے کی جھریوں سے بے پناہ محبت، والہانہ عقیدت اور اردو ادب کی تابندہ روایات اور چاشنی کا اظہار ہو رہا تھا- انہوں نے ایک سلجھی ہوئی مشرقی اور فرمانبردار خاتون کی طرح سَر پر چادر اوڑھ رکھی تھی اور یہی طرزِ عمل ان کے پُروقار لباس سے بھی عیاں تھا-

یہ ساعتیں میری زندگی کی حسیں ترین اور مشکل ترین ساعتیں تھیں، میں بیک وقت زمین پر بھی تھا اور آسمان پر بھی- بہرحال جلد ہی اس کیفیت پر قابو پایا اور بڑی تگ و دو کے بعد ان کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا- ان سے کچھ باتیں کرنے کی کوشش کی مگر انہیں اس بھری محفل میں روانی سے گپ شپ کرنے میں دقت محسوس ہو رہی تھی لیکن انہوں نے بڑے التفات سے میری طرف دیکھا اور میرے کاندھے پر اپنا متبرک ہاتھ پھیرا- میں ایک فرمانبردار بیٹے کی طرح مسکرا مسکرا کر نظریں بَھر بَھر کر ان کو تکے جا رہا تھا اور جو چند لمحے ان کی قربت میں نصیب ہوۓ، ان کا حظ اٹھا رہا تھا- بڑھاپے کے باوجود ان کی شخصیت بہت ہی بارعب اور اثرانداز ہونے والی تھی- انہوں نے اپنی موجودگی سے آس پاس کے سب لوگوں پر سحر طاری کر رکھا تھا-

اس مختصر سی ملاقات کے بعد “رئیس” کی نمائش شروع ہو گئی جو تین گھنٹے تک جاری رہی، انہوں نے بھی بڑی توجہ کے ساتھ وہ ڈراما دیکھا جو گورنمنٹ کالج میں انکی بسر کردہ آٹھ دہائیوں میں آخری ڈراما ثابت ہوا- ڈرامے کے اختتام پر جہاں سب لوگ دیگر معاملات کی طرف متوجہ ہو گئے وہیں میری پوری توجہ بانو آپی کی طرف تھی- اپنے کچھ دوستوں کو لے کر میں ایک دفعہ پھر ان کے گرویدہ ہو گیا- کتنی ہی گھڑیاں ان کا قرب نصیب رہا- بالآخر ایک پچاس کے نوٹ پر ان سے آٹوگراف لیا اور اس کے بعد وہ جانے لگیں- کیا معلوم تھا کہ گورنمنٹ کالج میں یہ ان کا آخری دورہ تھا- بہرکیف میں ان کے ساتھ ہو لیا اور ان کو پکڑ کر ان کی گاڑی میں بٹھایا اور نورالحسن بھائی کے ساتھ انہیں الوداع کیا- اس ملاقات سے قبل ہم دو دوست ان کی رہائش گاہ “داستان سراۓ” بھی گئے تھے مگر علالت کے باعث ان سے ملاقات نہ ہو سکی اور نہ ہی اس ملاقات کے بعد پھر جانے کا موقع ملا حالانکہ کئی دفعہ پروگرام بنایا اور ان سے ملنے کی آرزو بھی ہوئی-

آج جب کہ وہ اس دنیا میں موجود نہیں رہیں، دل خون کے آنسو رو رہا ھے- جی چاہتا ھے کہ کسی قدرشناس سے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روؤں تا کہ بانو آپی کی جدائی کا غم ہلکا کر سکوں مگر ایسا کوئی ملا ہی نہیں- ان کی رحلت بلاشبہ ادب سے پیار کرنے والوں کے لیے بہت بڑا صدمہ ھے جسے پُر کرنا کسی بھی طور ناممکن ھے- ہم ایک بے پناہ محبتیں بانٹتے والی شفیق ہستی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے مگر ان کے الفاظ اور ادب کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ ہمارے دلوں میں ان کی عزت و احترام کو قائم و دائم رکھیں گی- خدا انہیں غریقِ جنت کرے اور ان کی مرقدِ انور کو اپنی رحمتوں کا محور بناۓ، ان کے درجات بلند فرماۓ اور عالمِ برزخ میں سکون و اطمینان نصیب فرماۓ- آمین یا رب العالمین

You may also like...