آوازِ نسواں: شرمین عبید

Sharmeen Oscar Award

Sharmeen Oscar Award

صائمہ حسیب

اگرچہ ہم آسکر کا نام تو سنتے رہتے تھے۔ لیکن اس لفظ کی مسلسل تکرار اس وقت سننے میں آئی جب شرمین عبید چنائے نے ایک ڈاکومنٹری فلم پر یہ ایوارڈ حاصل کیا۔اس فلم کا موضوع تیزاب سے جلائی جانے والی مظلوم خواتین تھا۔ صرف یہ ہی نہیں اگلے ہی سال شرمین نے ایک اور فلم A Girl in the River پر دوسرا آسکر جیتا تو دنیا تو کیا ہم پاکستانی بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگئے۔ کہ ہماری ایک بیٹی کیسے یوں پہ در پہ آسکر ایوارڈ لے سکتی ہے۔
اگرچہ بہت سے لوگوں کو شرمین عبید کی فلموں سے اختلاف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ محترمہ کی فلموں میں مبالغہ آرائی دروغ گوئی کی حد کو چھونے لگتی ہے۔ ان فلموں میں مسلمانوں کی کسمپرسی اور نفسا نفسی کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ایمج کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ ایوارڈ سے پہل کم ہی لوگ شرمین عبید کے نام سے واقف تھے لیکن بعد ازاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر مسلسل تذکرہ اور حکومت کے انعام و اکرام کی دھوم کی وجہ سے اب یہ نام خاصہ مصروف ہے۔

دوسرے آسکر ایوارڈ ملنے کی خوشی میں جب وزیر اعظم ہاؤس میں شرمین عبید کو اعزازیہ دیا گیا تو وہاں شرمین عبید نے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مثبت قانون سازی کرنے کا وعدہ لیا۔ موجودہ پارلیمنٹ میں جب وویمن رائٹس بل بھاری اکثریت سے منظور ہوا تو زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والوں نے اس اقدام کو سراہا۔ کیونکہ معاشرے میں خواتین کے حقوق کی پائمالی اور ہتک آمیز روؤیوں کے بارے میں آگاہی ہوتی رہتی ہے۔

خواتین کو زندہ جالئے جانے سے لیکر ، اغواء، ریپ، تیزاب گردی، جسمانی تشدد، غیرت کے نام پر قتل وغیرہ جیسے سنگین واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ تر مجرم اپنے ہی خاندان کے افراد ہوتے ہیں۔ اور مدعی یا ولی بھی خاندان ہی سے ہوتے ہیں۔ جو کہ بعد میں ملزمان کو معاف کردیتے ہیں۔یہ ہمارے معاشرے کی ایک شرمناک حقیقت ہے۔ ایک تو زیادتی کرنے والا عورت کی بے عزتی کرتا ہے۔ پھر اس سے کئی زیادہ بے عزتی وہ عدالتون کے چکروں میں کاٹتی ہے۔ جس کی وجہ سے متاثرہ خاندان یا عورت اپنا کیس واپس لینے پر مجبور ہوجاتیں ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں سال 2013میں غیرت کے نام پر 869خواتین کو قتل کیا گیا۔ 2014میں 1000خواتین اور 2015میں یہ تعداد بڑھ کر 1100ہوگئی۔یہ صورتحال باعث تشویش نہیں ہے اسی طرح زنا بالجبر کے واقعات سال 2013میں370۔ 2014میں 410اور 2014میں 96 5ہوئے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو رجسٹرڈ ہیں ۔ اس سے کئی زیادہ واقعات ایسے ہیں جن میں خواتین اپنی حیاء اور عزت کی خاطر ، خاندان کے دباؤ میں آکر یا مجرموں کی دھمکیوں کے خوف سے خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس قسم کے مجرموں کو سزا ملنے کا تناسب 3سے 4 فیصد ہے۔

انصاف کے تقاضوں کے پیشِ نظر اب کوشش کی جاتی ہے کہ اس قسم کے مقدمات کا فیصلہ جلد از جلد کیا جائے۔ مقدمہ کی زیادہ سے زیادہ مدت تین ماہ تجویز کی گئی ہے۔ اب کوشش کی جائے گی کہ اس قسم کے مقدمات کی سالوں تک پیشیاں نہ کی جائیں۔ قانون سازی تو ماضی میں بھی کئی مرتبہ ہوچکی ہے۔ لیکن ان قوانین کی implementationنہیں ہوتی۔ اس لئے مظلوم خواتین اس سے استفادہ حاصل نہیں کرپاتیں۔ اس کے لئے حکومت کو مزید اقدامات کرنے ہونگے۔

سب سے پہلے تعلیم کی کمی کی وجہ سے عورت اپنے حقوق سے واقف نہیں ہے اس لئے تعلیم کے فروغ کیلئے کوششیں کی جائیں۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے جو قوانین بنائے جا رہے ہیں اس سے خواتین کو مکمل آگاہی دی جائے۔ شہروں قصبوں بلکہ یونین کونسل کی سطح پر آگہی مہم چلائی جائے۔ ان کا انصاف اور قانون پر اعتماد بحال کیا جائے تاکہ وہ ڈر کر چپ ہونے کی بجائے اپنے مجرم کو قرار واقعی سزا دلانے کیلئے کوشش کریں۔

اس کیلئے باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ جس میں گلی گلی، کوچہ کوچہ خواتین کو ان کے حقوق اور قانون سازی سے متعلق آگاہ کیا جائے۔ تھانہ کلچر میں بھی تبدیلی خصوصاً تفتیش کے اُصول و ضوابط کی جدت پسندی ناگزیر ہے۔ سپیشل وویمن فورس کا قیام جو کہ صرف خواتین سے متعلق کیسیس کی تفتیش کریں۔ اور متاثرہ خواتین کے پاس جاکر معلومات اکٹھی کریں۔ اگرچہ کچھ ادارے اور ذیلی تنظیمیں خواتین کے حقوق پر کام کررہیں ہیں۔ لیکن اگر ان آرگنائزیشنز کو ہر یونین کونسل کی سطح پر متعارف کروانے سے بہت سی مجبور خواتین مستفید ہوسکتی ہیں۔

You may also like...