غزل ۔ ندا فاضلی : Ghazal by Nida Fazli

غزل ۔ ندا فاضلی

دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو

صرف آنکھوں سے ہی دنیا نہیں دیکھی جاتی
دل کی دھڑکن کو بھی بینائی بنا کر دیکھو

پتھروں میں بھی زباں ہوتی ہے دل ہوتے ہیں
اپنے گھر کے در و دیوار سجا کر دیکھو

وہ ستارہ ہے چمکنے دو یونہی آنکھوں میں
کیا ضروری ہے اسے جسم بنا کر دیکھو

فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو

 

 

You may also like...